COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

باچا خان سے ایمل ولی خان تک:بدلتے دوست اور غدار ،|، رشید یوسفزئی

رشید یوسفزئی~


            درگئی کالج میں انگریزی ادب کا طالب علم تھا. پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن والوں نے ثقافی پروگرام کا انعقاد کیا. اسلامی جمعیت طلبہ کے غنڈوں نے مخالفت میں زمین آسمان سر پر اٹھائے. چند دن قبل انہیں غنڈوں نے راقم کو کالج سے نکالنے اور جسمانی  حملہ کرنے کی پلاننگ کی تھی. جرم یہ تھا کہ میں نے پرویز صاب کی کتاب "سلیم کے نام" ایک کلاس فیلو ارشد کو دی تھی. اپنی طریقہء واردات modus operndai کے مطابق جمعیت والوں نے اسکو الحاد پھیلانے کی منظم سازش قرار دی.

    پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن PSF  نے ثقافتی پروگرام کا اعلان کیا. جمعیت کی بدمعاشی کے ردعمل میں ہم نے پی ایس کی بھرپور  حمایت کی. اسلامی جمعیت طلبہ کی  سرپرستی کرنے والے ایک پروفیسر کو برا لگا. ذہن سازی کے طور پر  "خبریں" اخبار کی ایڈیٹر ضیاء شاہد کی کتاب "ولی خان جواب دیں" راقم کو مطالعہ کیلئے دی. کہ یہ دیکھیں یہ اے این پی لیڈر کی کردار ہے. اپ اسی کے پیروکاروں کی حمایت کرتے ہیں..... کتاب کیا تھی، بے سروپا الزامات، فحش گالیاں.... چند دن بعد اسی پروفیسر صاحب اور ان کی ظل عاطفت میں پروان چڑھنے والی جمعیت طلبہ کی درمیان ٹن گئی.... بات تشدد پر اگئی.... پروفیسر صاب اکیلے تھے.... پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تعاون کیلئے محتاج ہوئے..... ساتھ عدم تشدد کے علمبردار بن گئے...

    ایک دن کلاس تاخیر سے گیا. پروفیسر صاب کلاس میں باچاخان کی فلسفہ عدم تشدد، پختون قام کیلئے ان کی خدمات اور  پختونوں کی ناشکری اور باچاخان کی تعلیمات، اور مقام  و مرتبے سے کماحقہ شناسائی حاصل نہ کرنے پر بات کر رہے تھے. میں نے کاغذ کی ایک ٹکڑے پر جماعت ہی سے وابستہ شاعر حسین احمد صادق کی ایک شعر:

      وختہ زمونگ د نظریے زور بہ منی او کنہ
         چی د سیپارے منکرو ترخ کی سیپارے اونیوہ

   لکھ کر ارشد کو دی. اس نے ھنسی ضبط کی. کلاس ختم ہوئی تو پروفیسر صاب نے باچا خان کی شخصیت اور زندگی و خدمات پر اپنے ساتھ لائی ہوئی کتاب تاکید کیساتھ پڑھنے کو دی..... علمی دنیا میں باچاخان کی خدمات  و شخصیت سے میری یہ پہلی تعارف تھی....... پروفیسر صاب نے جس طرح ولی خان بارے اپنی موقف سے رجوع کی تھی بلکل اسی طرح   اپنی سیاسی زندگی میں ہر پختون کو اس پورے خاندان کے بارے میں کسی نہ کسی موڑ پر اپنے معاندانہ  نظریات سے رجوع کرنا پڑتا ہے....... 
     

        باچاخان کی شخصیت، فکر و فلسفہ سے واقفیت رکھنے والے کسی پنجابی، سندھی، بلوچ یا کسی بھی غیرپشتون سے آپ سوال کریں کہ "باچاخان بارے آپ کی کیا راۂے ہے؟" 

جواب ہوگا :
        "عظیم انسان تھے. عالمی سطح کے عظیم رہنما تھے۔ امن کے پیامبر تھے۔  پختون سماج میں روشن خیالی کے علمبردار تھے. وغیرہ وغیرہ۔" 

    پھر اسی بندے سے  ولی  خان کے بارے میں  استفسار کریں تو بے ساختہ جواب میں کہے گا:
" ولی خان انتہائ زیرک سیاستدان تھے۔ سیاسی بصیرت کی وجہ سے ایشیاء و یورپ میں انہیں ممتاز حیثیت حاصل تھی۔ خطے کی سیاست ان کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے. وغیرہ۔ "

      اب باچاخان اور ولی خان کے بعد اسفندیار ولی اور ایمل ولی خان کے بارے میں پوچھیں تو جواب آۓ گا کہ:

    "اِنہیں تو ہم نہیں مانتے۔"

      باچا خان اور ولی خان زندہ تھے تو  یہیں لوگ.... یا ان کے باپ دادا..... ان کو بھی نہیں مانتے تھے... فوت ہوئے تو یہ تسلیم کرتے ہیں.....یہاں مخالف غیر پشتونوں اور کچھ پشتونوں کی فرق مٹ جاتی ہے.  پشتون سیاست سے ناواقف غیرپشتون  اِنہیں" غدار اور ملک دشمن" کے القابات سے نوازے گا تو کوئ پشتون آ کر انہیں پاکستانیت نواز سیاست دان کہہ کر ان کی خلاف ہرزہ سرائ کرے گا۔۔۔۔۔  ایسے میں  کسی پشتون اور غیرپشتون میں آپ کو  کوئ فرق نظر آرہا ہے ؟

     جب باچاخان بقید و حیات تھے، تو اُن کی زندگی میں ہی یہ لوگ انہیں گالیاں دیتے تھے۔ انہیں سرحدی گاندھی اور  غدار کہتے تھے۔ اسلام دشمن کے ٹھپے لگاتے تھے۔  کچھ اور لوگ ولی خان کی زندگی میں باچاخان کو مانتے تھے جبکہ ولی خان کے دشمن تھے۔ مگر جب دونوں چلے گئے تو دونوں ہیرو کہلانے لگے، باچاخانیت کا طوطی بولنے لگ گیا اور ولی خان کی سیاسی پیش بینی و بصیرت کی مثالیں دی جانے لگیں۔ 

    باچاخان اور ولی خان غدار اور دشمن سے ہیرو تو بن گئے مگر اب ان کی سیاست کے جانشین، ان کے گھر میں پلنے بڑھنے والے، ان کی سیاست کے امین، ان کے ناموس کے محافظ، ان کی سیاسی اکیڈمی اور یونیورسٹی میں تربیت پانے والوں سے پشتون دشمنوں کو مسلہ ہے۔ جو متعفن اور متعصبانہ غیرسیاسی راۓ یہ لوگ باچاخان اور ولی خان کے بارے میں اُن کی حیات میں رکھتے تھے۔ یہی راۓ اب ایمل ولی اور اسفندیار ولی کے بارے میں رکھتے اور پھیلاتے  ہیں۔۔۔۔۔ یعنی ایمل ولی اور اسفندیار کو پشتون دوست بننے کے واسطے پہلے مرنا پڑے گا۔....جب تک زندہ ہیں وہ پختونوں اور پاکستانیوں دونوں کے زیرِ عتاب ہی ٹھہریں گے۔..... یہ ہے ہمارا سیاسی شعور۔...... سیاسی اونچ نیچ اور اختلاف راۓ کو قوم دشمنی شمار کرنا ہمارا خاصہ رہا ہے۔ وگرنہ فخرِ افغان باچاخان اور رہبر تحریک خان عبدالولی خان کے قبیل نے پختون قوم کی فکری و سیاسی آبیاری میں جو تاریخی کردار ادا کیا ہے، اس سے انکار کرنے والا اپنی ہی تاریخ اور اپنے لوگوں کی قربانیوں سے نابلد کوئ احمق و جذباتی شخص ہی ہوگا۔..... جو بندہ بابا جانی اور خان عبدالولی خان کے خلاف بولتا ہے بس یہیں ڈی این اے ٹیسٹ ریزلٹ اسکی کافی ہے... کہ پشتون کبھی نہیں ہوسکتا. 

    باچاخان اور ولی خان نے پختون قوم کی تحفظ اور بقا کے عوض میں برطانوی استعمار فاشسٹ پاکستانی ریاست کے عقوبت خانوں اور جبر کو برداشت کیا تو اسفندیار نے ریاست اور پختون دشمن طالبان دونوں کی دشمنی مول لی۔ سینکڑوں رہنما اور کارکنان شہید کراۓ گئے۔ خود قاتلانہ حملوں کی زَد میں آۓ۔ مگر عالمی طاقتوں کے سامنے پختون قوم کے مفادات اور ضروریات کو اسلامی شدت پسندی کے بالمقابل دو ٹوک انداز میں پیش کرتے رہے۔ یہاں تک کہ بقول ایک طالبان کمانڈر: ”اسفندیار ولی خان تو آصف زرادی اور یوسف رضا گیلانی سے بھی زیادہ ہمارے لیے خراب ہوتی صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔“

اسفندیار کے ساتھ ساتھ ایمل ولی بھی ذیلی تنظیمی عہدوں سے گزر کر سیاسی تربیتی مراحل سے ہوتے ہوۓ موجودہ عہدے تک پہونچے ہیں۔ اس خطے میں سیاست کی سب سے بڑی تربیت گاہ میں پیدا ہوئے.... ایچی سن میں پڑھا. 
 کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے  ایم بی اے کی ڈگری لی.   باچاخان ٹرسٹ میں بطور سیکریٹری جنرل/ چیئرمین تجربہ حاصل  کیا۔ افراسیاب خٹک جیسے جہاندیدہ انٹلکچول سیاست دان کے ساتھ جائنٹ سیکریٹری رہے۔ حیدر ہوتی کے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہے..... اور بالآخر پارٹی ممبران کے ووٹ ہی سے صدر بنے..... سیاسی تجربہ یہی ہوتی ہے اور یہی کافی ہے. 

ایمل پشتون روایات کا پابند ہے۔ سیکولرزم کا علمبردار ہے۔ حقیقت پسند ہے۔ بے لاگ و بےباک اور دوٹوک انداز میں اپنا مؤقف پیش کرتا ہے۔ دیگر اکثریتی سیاستدانوں کی طرح ڈپلومیٹک اور منافقانہ انداز میں مخنث بیانات کا سہارا نہیں لیتا۔...... انہیں صفات نے مجھے اور مجھ جیسے کئی  سیاسی طور پر غیر وابستہ کتابی لوگوں کو متاثر کیا..... اس سے قبل ہر مناسب موقعہ  ہم نے ایمل ولی خان پر تنقید کی ہے.... تاہم گزشتہ دنوں ان کی جرات مندانہ مؤقف کی تائید و تعریف کی تو کئی سیاسی شعور سے محروم دوست سیخ پا ہوگئے.... ایک جونیئر بیورو کریٹ دوست بار بار طعنے دیتے ہیں کہ "سر آپ نے موقف تبدیل کی." عرض کیا میں جامد نظریات کا نہیں. معروضی حقائق Objective realitie اور اپنے مشاہدے و مطالعے کا مکلف ہوں. لارڈ رسل نے کہیں لکھا ہے کہ میں نظریے کیلئے مر نہیں سکتا. کیا معلوم میرا نظریہ ہی غلط ہو..... نظریہ پر قائم رہنا جمود ہے. اگر کوئی مظہر Phenomenon حقیقت ہو اور آپ کے نظرئے سے متصادم ہو تو نظریہ بدلیں. حقیقت بدلنے کی ضد نہ کریں". 

     اسی دوست سے نوجوان  ایمل ولی (پیدائش 1987) کی مخالفت کا سبب دریافت کیا تو بولے" سر ابھی تک ایمل جیل نہیں گیا... اس پر کوئی حملہ نہیں ہوا.....!".
      خدا پشتون  لیڈری سے بچائے رکھے. اب  اس کیلئے قید یا خودکش حملے میں زخمی ہونا میرٹ قرار پایا.
    
     جانانہ ستا د یارانے نہ
        د روزے سل زلہ توبے اوباسم.
نوٹ: یہ مضمون مصنف کے فیس بک پروفائل سے کاپی کیا جا چکا ہے۔
        
              

No comments