سانحہ سپين تنگى 24 اگست 1930،،،، ڈاکٹر سہيل خان
آزادی کی جنگ میں پختون قوم کے اجتماعی تشخص نے لازوال کردار ادا کیا پختونوں نے مزاحمت کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے سامراجی جبر کے سامنے اپنی قومی شناخت کا مقدمہ رکھا انگریزوں کے پاس تشدد ابھارنے اور تشدد کے ذریعے آزادی کی تحریک کو دبانے یا ختم کرنے کا پورا سامان موجود تھا تاہم خدائى خدمتگار تحریک نے فلسفہ عدم تشدد کے ساتھ ساختیاتی تکنیک کے ذریعے فرنگی سامراج کا ہر حربہ ناکام بنا دیا جب اس پر بس نہ چلا تو مذہب کو ہتھیار کے طور پر آزمایا تاہم عدم تشدد کے پيروکاروں نے اس ہتھیار کو بھی ناکام بنا دیا 1929 میں خدائی خدمتگار تحریک کی ابتداء ہوئی اور ایک سال کے اندر یہ تحریک خود کو واقعتا ایک منظم تحریک ثابت کر چکی تھی تب فرنگی حکومت کو اس تحریک کی اصل طاقت کا علم ہو چکا تھا یہ تحریک قلم کے ذریعے پختونخوا کی گلی گلی تک پہنچ چکی تھی اس کا اپنا اخبار اور رسالہ ' پختون'سیاسی شعور پیدا کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہا تھا تو دوسری طرف رسمی تعلیم کے ذریعہ تمام اضلاع میں آزاد اسکول قائم ہو چکے تھے تھے
جہاں مٹی سے محبت کے اسباق پڑھانے کے علاوہ مذہب کے معنوی تصور کے اور روزگار کے تکنیکی کورس بھی پڑھائے جاتے تھے اس کے اسٹیج پر تاریخ کے پہلے مشاعرے کا اہتمام ہو چکا تھا یہی ملی بیداری پر تاريخ کا پہلا ڈرامہ اسٹیج ہو چکا تھا اور يہ سلسہ چل نکلا تھا - معاشرے کے فلاح اور بہتری کےلئے خدائی خدمتگار مساجد اور حجروں کی صفائی کا کام مہم کے طور پر شروع کرچکى تھى تنظيم مضبوط کرنے کے لیے باقاعدہ صبح و شام خدائی خدمت گار پریڈ کا اہتمام کرتے تھے لہٰذا جب یہ تحریک قومی شعور اور تشخص کے مطلوبہ اہداف کی طرف بڑھنے لگے تو فرنگی سامراج نے تشدد کے ذریعے سے اس کو کچلنے کا منصوبہ بنایا اور 23 اپریل 1930 کو قصہ خوانی بازار پشاور میں نہتے حریت پسندوں پر گولیاں برسائیں اور اور آزادی کے 272 پتنگ شہید کر ديئے اس کے بعد مئى 1930 کو ٹکر مردان میں پورے کا پورا گاؤں جلا دیا گیا جبکہ 28 افراد کو بے دردى سے شہید کيا گيا ۔ اگلی باری اتمانزئی کى تھى جہاں پر فرنگی فوج نے خدائی خدمت گاروں پر مشین گن چلائی جس سے دو خدائی خدمتگار شہید اور کئی زخمی ہوگئے
ایک ایسا ہی واقعہ 24 اگست 1930 کو سپین تنگی کے علاقے بنوں میں ہوا . اس بار عوام کو فرمان جاری کیا گیا کہ سب کے سب اسلحہ جمع کروائیں پھر ان کا خیال تھا کہ پختون انکار کر لیں گے اور ان کو کچلنے کا آسان موقع ہاتھ آ جائے گا تاہم عوام نے اسلحہ جمع کروادیا - مسجد قصابان سپین تنگی میں عوامی اجتماع منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپین تنگی کے مقام پر 24 اگست 1930 کو ایک جلسے کا انعقاد ہوگا جس کے بعد فیصلہ کرنے والے دو زعماء ھیبت خان اور رئیس خان کو گرفتار کر لیا گیا ۔ ڈپٹی کمشنر بنوں نے فرنٹئیر کانسٹیبلری کے ہمراہ تمام گھروں کی تلاشی لی اور پھر ان کے گھر سے سامان نکال کر ان کو آگ لگا دی عوام پر بھی خاموش تھی
اس جلسے کی صدارت قاضی فضل قادر کے سپرد تھی تاہم انگریز کپتان ایشرواٹ نے اسے گرفتار کرنا چاہا عوام نے کہا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد آپ کو گرفتاری دے دیں گے یاد رہے کے اسی ایشرواٹ نے سانحہ قصہ خوانی میں بھی اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے سینکڑوں عوام کو شہید کیا تھا
جلسے کے وقت سپین تنگی کے مقام پر ہزاروں لوگ جمع تھے دے جبکہ گورا فوج کا رسالہ گائیڈ جلسے کو تحویل میں لے چکا تھا ۔ قاضی فضل قادر سٹیج پر کھڑے تھے کپتان ایشرواٹ نے اپنے چار فوجیوں کے ساتھ سٹیج پر دھاوا بول دیا ان کے ہاتھ میں پستول تھا - حاجی فضل قادر نے اپنے تمام ساتھیوں کو پرامن رہنے کی تلقین کی بقول اکرام اللہ گران
چې څوک مه وژنئ لاس یې هم نه نیسم
زما په يو حالت کښې شر نه لګي
(اگر کوئی مجھے قتل کرنے کے واسطے گریبان سے پکڑ لے تو اس کا ہاتھ نہیں رکن گا کیونکہ مجھے کسی بھی حالت میں شر فساد سے نفرت ہے)
کپتان ایشر آؤٹ نے قاضی فضل قادر کو داڑھی سے پکڑا اور ان کی خوب توہین کر ڈالی جس سے عوام کو سخت غصہ چڑھ دوڑا اسی دوران ایشرواٹ نے پستول سے فائر کرکے حاجی فضل قادر اور ان کے ساتھ کھڑے ايک بزرگ کو گولیاں مار کر شہید کر دیا جلسے میں شریک نوجوان جندل شاہ جس کا تعلق بازار احمد خان سے تھا نے درانتی سے کپتان پر حملہ کیا پھر کیا تھا اندھا دھند گولیوں سے دو سو شرکاء کے سینے چھلنی کر دیئے گئے جبکہ ظلم کی انتہا دیکھئے کہ 420 بکریوں بھینسوں کو بھی فائرنگ کرکے مارا گیا اور حد یہ کہ حاجی فضل قادر کی لاش ورثاء کو حوالے کرنے کی بجائے بنوں جیل میں دفن کر دى گئ
اسی سانحہ پر جسٹس نعمت اللہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جنہوں نے اپنی سفارشات میں عوام کی بے گناہی کا ذکر کیا مگر ہمیشہ کی طرح فرنگی نے جلیانوالہ باغ اور نہ ہی اس جيسے واقعات پر معافی مانگى اور نہ ہی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کسی قسم کا رد عمل ظاہر کیا آج 24 اگست 2020 کو جب اس واقعے کے 90 سال مکمل ہونے کے بعد بھی تاریخ نے نہ کسی ریاستی جغرافیہ میں ان کی قربانیوں کا ذکر مناسب سمجھا اور نہ ہی کسی جغرافیائی تاریخ کو محفوظ کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ُُ
نوٹ: یہ مضمون مصنف کے اجازت سے یہاں پر شائع ہوا ہے۔ مصنف باچا خان ٹرسٹ کا ڈائریکٹر ہے۔
No comments