23 مارچ 1973: شہداء لیاقت باغ کا دن،،،، مظہر آزاد
23 مارچ 1973: شہداء لیاقت باغ کا دن
فوٹو کریڈیٹ: امن ٹی وی |
فائل فوٹو مظہر آزاد |
جب1970کے عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی۔ بھٹو نے نعرہ تو جمہوریت کا لگایا تھا مگر مزاج اس کا آمرانہ تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد پہلے تو وہ خود حزبِ اختلاف میں بیٹھنے کیلے قطعاً تیار نہ تھا اور جب پاکستان ٹوٹ گیا، بنگلہ دیش بن گیا اور اختیار بھٹو کے ہاتھ میں آگیا، تو حزبِ اختلاف جو جمہوری نظام کا ایک اہم اور ناگزیر جز ہوتا ہے، کی حیثیت کو دل سے تسلیم کرنے کیلے تیار نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی نے اُس وقت کے صوبہ سرحد میں قائم عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود کی مخلوط حکومت کے خلاف کارروائی کی۔
حکومتی ممبران کے مقابلے میں اپوزیشن کی تعداد برائے نام ہی تھی لیکن بھٹو
کی بدقسمتی یہ تھی کہ اُن کے سامنے اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان اور ڈپٹی
اپوزیشن لیڈر چوہدری ظہور الہی جیسے سیاستدان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اقلیت میں ہونے
کے باوجود بھی قائد عوام کو اپوزیشن سے ڈر رہتا تھا کہ وہ اس اپوزیشن کے ہوتے ہوئے
کوئی ایسا کام نہیں کر سکتے تھے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ تھے حکومت کو
اپوزیشن کا یہ مختصر سا وجود بھی گوارا نہیں۔ یہی وجوہات تھیں جس کے نتیجے میں
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
بھٹو کی یہی غیر جمہوری سوچ کے نتیجہ میں اپوزیشن کو اکھٹا ہونا پڑا اور
سانحہ لیاقت باغ وقوع پذیر ہوا جو حکومت کے زوال کا نقطہِ آغاز بن گیا۔ متحدہ
جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت
علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔ ایوان کے اندر
اور باہر کی پارٹیوں کو متحد کرکے بھٹو حکومت کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ بنا تو
چوہدری ظہورالٰہی کی تجویز پر سندھ کے حر رہنما پیر پگاڑا اس کے سربراہ منتخب کیے
گئے۔
ولی
خان سانحہ لیاقت باغ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ متحدہ جمہوری محاذ میں شامل پنجابی
قوم پرست لیڈروں کو یہ شکوہ تھا کہ بھٹو جو بھی اقدامات کر رہا ہے اُس سے نقصان
چھوٹے صوبوں کا ہو رہا ہے اور اس نقصان کے ساتھ ساتھ اُن چھوٹے صوبوں میں پنجاب کی
ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ چھوٹے صوبوں کی عوام یہ سمجھ رہی ہے کہ اُن کا یہ نقصان
پنجاب اور پنجابی کر رہے ہیں حالانکہ یہ بھٹو اور پاکستانی اسٹیبلیشمنٹ کی
کارروائی تھی جس کی وجہ سے چھوٹے صوبوں کے حقوق پامال ہو رہے تھے۔
متحدہ محاذ نے اپنے قیام کے فوراً بعد جہاں آئین پاکستان میں متفقہ
آئینی ترامیم پیش کیں، وہاں 23 مارچ 1973 کو یوم پاکستان کے موقع پرلیاقت باغ
راولپنڈی میں جلسہ عام کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ حکومت نے اس احتجاجی جلسہ کو
اپنے خلاف اعلان جنگ قراردیا اور اپوزیشن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ سوچ یہ
تھی کہ حکومت کے خلاف اس تحریک کو سراٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر
عبدالولی خان اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر چوہدری ظہور الہی کو یہ اطلاع تو مل چکی تھی
کہ لیاقت باغ جلسہ کو سبوتاڑ کرنے سازش کی جارہی ہے، لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں
تھا کہ یوم پاکستان پر لیاقت باغ میں کوئی سانحہ رونما ہو جائے گا۔
متحدہ
محاذ کے جلسے کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناکام بنانے کا منصوبہ بنایا تھا جس کی
ذمہ داری پنجاب کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی کھر کو سونپی گئی۔ کھر نے جہلم سے پیپلز
پارٹی کے راہنما اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر غلام حسین اور کچھ دوسرے لوگوں کی
ڈیوٹی لگائی۔ منڈی بہاؤالدین اور ملحقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد کو
بطورِ خاص راولپنڈی لایا گیا تھا۔
23 مارچ کی صبح راولپنڈی میں یوم
پاکستان کی سرکاری تقریبات اختتام کو پہنچی۔ ریڈیو اور پی ٹی وی پر صدر، وزیراعظم
اور مسلح افواج کے سربراہ کے سرکاری پیغامات روایتی شان و شوکت سے نشر کیے گئے۔
ادھر، نماز جمعہ ختم ہوتے ہی متحدہ محاذ کے کارکن جوق در جوق لیاقت باغ میں جمع
ہونا شروع ہو گئے۔ اسٹیج سج چکا تھا۔ چونکہ متحدہ محاذ کے رہنما ابھی جلسہ گاہ میں
نہیں پہنچے تھے، لہٰذا جلسہ کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا؛ صرف یہ تھا کہ مجمع کا
جوش بڑھانے کے لیے وقفہ وقفہ سے مختلف اعلانات کیے جا رہے تھے۔ اچانک اسٹیج کے عقب
میں واقع لیاقت میموریل ہال سے’’ نامعلوم افراد‘‘ نے جلسہ گاہ کو نشانہ بنا کے
فائرنگ شروع کردی۔ لیکن پھر چوہدری ظہور الٰہی متحدہ محاذ کے رہنماوں پیر پگاڑا،
خان عبدالولی خان، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفوراحمد، غوث بخش بزنجو اور
اجمل خٹک کو لے کر جلسہ گاہ پہنچ گئے۔
لیاقت باغ میں اب ہر طرف شور ہی شور تھا؛ فائرنگ کا شور، تقریروں کا شور،
نعروں کا شور۔ شدید فائرنگ کے باوجود جب اپوزیشن کے کارکن منتشر نہ کئے جا سکے تو
پنجاب پولیس کی طرف سے ان پر آنسو گیس کے اس قدر گولے برسائے گئے کہ ان کے لیے
سانس لینا مشکل ہو گیا۔ لیاقت باغ کے اندر اور باہر اب دھواں ہی دھواں تھا۔ لیاقت
باغ میدان کارزار بن چکا تھا۔ اب جس کا جدھر سینگ سما رہا تھا ، وہ ادھر بھاگ رہا
تھا۔ شام کو بھٹو حکومت کی طرف سے جو سرکاری اعلان کیا گیا، اس میں کہا گیا کہ
پولیس اور ’شرپسندوں‘ کے درمیان ’’تصادم‘‘ کے نتیجہ میں 8 شرپسند ’’ہلاک‘‘ اور 75
افراد زخمی ہو گئے ہیں لیکن غیر سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ مرنے والوں اور زخمی
ہونے والوں کی تعداد اِس سے کہیں زیادہ تھی اور تقریباً 153 بے گناہ لوگ شھید
ہوگئے تھے۔
حیرت
کی بات یہ تھی کہ لیاقت باغ کے مقام پر ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کا جلسہ عام
تھا، اُس پر فائرنگ کی گئی، جلسہ گاہ میں ملک کے اپوزیشن و ڈپٹی اپوزیشن لیڈر
موجود تھے لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود حکومتی مشینری کو کوئی فرق نہیں پڑا اور
کوئی بھی حکومتی ادارہ عوام کے حفاظت کی خاطر حرکت میں نہ آیا۔ بعض اطلاعات کے
مطابق پنجاب پولیس نے بھی اس اجتماع پر براہ راست فائرنگ کی تھی اور مختلف جماعتوں
کے کارکنان موقع پر شہید کردیے گئے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ نے 17 اگست 73 کو سول
نافرمانی کا اعلان کردیا۔ 10 فروری 1975 کو حکومت نے نیپ پر پابندی عائد کی جسے
عدالت نے بھی 30 اکتوبر 1975 میں جائز قرار دے دیا جِس کے نتیجے میں نیپ کے مرکزی
اور صوبائی قیادت کی اسمبلیوں کی رکنیت بھی ختم ہوگئی اور بعد میں نیشل عوامی پارٹی
کے لیڈروں کو قید کردیا گیا جس میں ولی خان بھی شامل تھے۔ یہی پاکستان کی سیاسی
تاریخ کا وہ عجیب وقت تھا جب ولی خان کے والد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان
بھی بھٹو حکومت کی جیل میں تھے اور اُن کا بیٹا اسفندیار ولی خان کے بھی جیل میں
تھے یعنی ایک ہی خاندان کے تین نسلیں جیل میں تھی۔
سانحہ لیاقت باغ میں یہ بات اہم تھی کہ بیشتر مقتول کارکنوں کا تعلق خیبر
پختون خوا سے تھا۔ سانحہ لیاقت باغ میں مرنے والوں کو 24 مارچ 1973 کو سپرد خاک کر
دیا گیا لیکن سانحہ لیاقت باغ نے بھٹو حکومت کے مخالف عناصر میں نفرت کی جو لہر
پیدا کردی، وہ پھر تھم نہ سکی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید بڑھتی اور
مزید پھیلتی چلی گئی۔ یوں متحدہ جمہوری محاذ کے بطن سے اپوزیشن کے وسیع تر اتحاد،
پاکستان قومی اتحاد نے جنم لیا اور نفرت کی یہ لہر ایک طوفان بلاخیز کی شکل اختیار
کر گئی۔
کہتے
ہیں کہ تاریخ کا جبر بہت خطرناک ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر 2007 میں لیاقت باغ کے تاریخی میدان سے ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی
بینظیر بھٹو کی لاش اُٹھی ہے تو اسی میدان سے 1973 میں بے گناہ پختونوں اور سیاسی
کارکنان کی لاشیں بھی اُنہی بھٹو صاحب کے حکم پر اُٹھائی گئی تھیں۔
سانحہ لیاقت باغ پر نیشنل عوامی پارٹی میں شامل حبیب جالب نے بھٹو کو کچھ
اِس طرح “خراج تحسین” پیش کیا
میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزیر ہیں سارے ہی بے ضمیر ہیں
میں انکا بھی امام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں پسر شاہنواز ہوں میں پدر بے نظیر ہوں
میں نکسن کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پیر ہوں میں لکھپتی فقیر ہوں
وہسکی بھرا ایک جام ہوں میں قائد عوام ہوں
سنو اے موحبان وطن رہنے نہ دونگا مہکتا چمن
میں موت کا پیغام ہوں میں قائد عوام ہوں
میری زبان ہے بے کمال لڑتا ہوں میں ہزار سال
میں اندرا کا غلام ہوں میں قائد عوام ہوں
ہیں قادیانی میری جان نہ فکر کر تو مسلمان
میں قاتل اسلام ہوں میں قائد عوام ہو
No comments