COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

کرشن چندر کے ناول "غدار" پر اقراء سمیع کا تبصرہ


ناول: غدار
مصنف: کرشن چندر
تبصرہ: اقراء سمیع 

کرشن چندر اُردو ادب کے بہترین ناول نگاروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کا ناول "غدار" اُن کی خوبصورت منظر نگاری اور جذبات نگاری کی عکاسی کرتی ہے۔ 
یہ ایک نہایت ہی خوبصورتی سے لکھی گئی ناول کے مرکزی کردار بیج ناتھ کی المناک آپ بیتی ہے جو کہ اول سے آخر تک پڑھنے والے کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔
ناول میں تقسیمِ ہند کے نتیجے میں پیش آنے والے فسادات اور حادثات کو قلم بند کیا گیا ہے، ناول کا ہر لفظ درد اور تکلیف سے بھرا ہے اور تحریر اس قدر دلچسپ ہے کہ ایک ہی نشست میں پورا ناول ختم کیا جاسکتا ہے۔ 
 یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگست 1947 میں قتل و غارت اور فساد کا جو سماں پھیلا ہوا تھا اُس کو بندہ خود ابھی اور آج کے زمانے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
  جو تکلیفیں اور مصیبتیں بیج ناتھ پنجاب سے ہندوستان تک کا سفر کرتے ہوئے اٹھاتا ہے، اُن کو قاری اپنے اندر محسوس کرسکتا ہے۔
 بیج ناتھ کا دوست جب بیج ناتھ کو لاہور اسٹیشن پر چھوڑ کر، لاہور چھوڑ دینے کے لیے بولتا ہے اور وہ رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہتا ہے " تمہیں معلوم ہے کہ میں لاہور کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے لاہور سے عشق ہے"
  تو اُس وقت جدائی کے اُس درد سے اور بچھڑ جانے کی اُس تکلیف سے پڑھنے والے کی آنکھیں نم دیدہ ہوجاتی ہیں۔
  کہانی آگے بڑھتی ہے تو پڑھنے والا بیج ناتھ کے ساتھ لالے گاؤں سے لاہور، لاہور سے ضلع گورداسپور کے گاؤں کوٹلی سودکاں تک اور کوٹلی سودکاں سے چلتے چلتے ہندوستان تک کا پورا سفر طے کرتا جاتا ہے بلکہ بعض مقامات پر قاری پر یہ گمان گزرتا ہے کہ موت کے اُس کھیل میں وہ بیج ناتھ کیساتھ بنفس نفیس موجود ہے اور بربریت کی اُس آندھی میں لحظہ بہ لحظہ بلند ہوتی چیخ و پکار کو سن رہا ہے، انسانی جانوں کے ذبح ہونے کا آنکھوں دیکھا شاہد ہے۔ وہ خود کھادوں کے تیز دھار والے پتوں سے زخمی ہوئے چور بدن کے ساتھ اُنہی کھادوں کے کھیتوں میں پناہ لے رہا ہے اور گویا خود ہی خون کے پیاسے بنے انسانوں سے اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا ہے۔
تقسیمِ ہند کے وقت لوگوں نے اپنے گھر بار اور اپنے پیاروں کو کھود دیا اور جو خون کی ہولی اُس وقت کھیلی جارہی تھی، مصنف نے ناول میں اپنے الفاظ کے ذریعے اُسکی اعلیٰ منظر کشی کی ہے۔
   لکھتے ہیں۔
  "میرے رفیقو! آج انسان کی دنیا میں بہت زیادہ اندھیرا ہے، بہت زیادہ ظلم ہے، بہت زیادہ تنگ نظری ہے،۔۔۔ تھوڑا سا اندھیرا تو مجھے بھی گنورا ہے اور تھوڑی سی تنگ نظری تو میری روح میں بھی ہوگی اور تھوڑا سا ظلم تو میں نے بھی کسی ذات پہ کیا ہوگا، مگر اتنا بڑا اندھیرا؟ اتنا بڑا ظلم؟ اتنی گہری تنگ نظری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی کہ ایک انسان دوسرے انسان پہ عرصہ حیات تنگ کردے"
 ظلم اور بربریت کے اُس مقام پر ہر کوئی سکھ، ہندو، مسلمان ہے لیکن انسان کوئی بھی نہیں ہے اور بے حسی کے اُس دور میں جو کوئی وفا اور ساتھ نبھاتا ہے تو وہ ایک اشرف المخلوقات نہیں بلکہ ایک کتیا رومی ہوتی ہے جو بیج ناتھ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود اُسکے درد اور کرب سے بھرے سفر میں اُس کا ساتھ دیتی ہے اور آخر میں جب بیج ناتھ راوی کا دریا عبور کرنے کے لیے پانی میں چھلانگ لگاتا ہے تو وہ اُس کے پیچھے چھلانگ لگا کر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
 تقسیم کے وقت مسلمان، ہندو، سکھ ہر ایک پر زمین تنگ کردی گئی تھی۔ کسی کو امان حاصل نہیں تھی اور ہر کوئی اپنی جان بچانے کے در پہ تھا۔ 
 ایک جگہ پہ مصنف نے انسانوں کو جانوروں سے تشبیہ دی ہے۔
 کہتے ہیں کہ جب جنگل میں کوئی بہت بڑی آفت آتی ہے تو اس وقت سارے جانور اکھٹے ہوکر بھاگتے ہیں بلکل اُسی طرح بوڑھے، بچے، عورتیں، جوان، ، ہندو، سکھ، برہمن، کھتری، راجپوت، مہاجن، جنگل کے جانوروں کی طرح سب ایک ساتھ ایک ہی قافلے کے صورت میں گزر رہے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ انسان کسی آگ، طوفان، یا سیلاب سے نہیں بھاگ رہا بلکہ جس قیامت سے وہ بچ نکلنے کی کوشش کررہا ہے وہ انسان ہی کی برپا کردہ قیامت ہے، انسان ، انسان سے ہی اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا ہے۔
 انسانیت ناپید ہوگئی ہے، نفرت کا بول بالا ہے۔
 برسوں پرانی آشنائیاں ختم ہوگئی ہیں، راتوں رات ہی دوستیاں دشمنیوں میں بدل چکی ہیں۔
شاداں اور بیج ناتھ ایک دوسرے سے زندہ بچھڑ گئے ہیں۔ پاروتی سے اُسکی محبت چھیننے کے لیے امتیاز کو موت کی گھاٹ اُتارا گیا ہے۔
نتھو اور احمد یار اپنے اپنے دیس سمیت اپنی دوستی کو بھی کھو بیٹھے ہیں۔
ہر طرف سر سبز کھیت، گھات کی کمین گاہیں بنی ہوئی ہیں۔ چھڑی، نیزے اور بلم سینوں کے اندر گھونپے جارہے ہیں۔
*" بابا بچے کے قریب مرا پڑا تھا اور اسکے سفید بالوں والے سینے میں بلم کا گہرا شگاف تھا۔۔ ایک تاریک گہرا سیاہ شگاف۔۔۔ اور شگاف کے ارد گرد سینے پر لہو انسان کی نفرت کی طرح منجمد ہوگیا تھا"*
 ایسے میں جو کوئی مذہب اور تہذیب کے ان جھگڑوں سے بالاتر انسانیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کسی کی عزت لوٹنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، کرب سے روتے بلکتے ملتجیانہ نگاہوں کو ترحم آمیز نگاہوں سے دیکھتا ہے اور کسی کے سینے میں بلم گھونپنے سے انکاری ہوجاتا ہے تو وہ 'غدار' کہلاتا ہے۔
 آخر میں کرشن چندر نے کیا خوب اُس منظر کی دل دہلانے والی تصویر کشی کی ہے کہ جب بیج ناتھ کو لاشوں کے ڈھیر میں سے ایک بچہ ملتا ہے جو اپنے مرے ہوئے بابا کے پاس بھوک سے نڈھال پڑا رو رہا ہے۔
 لکھتے ہیں:
 "جب اس نے انگوٹھا چوستے چوستے سر اٹھا کر یکبارگی میری طرف جو معصوم نظروں سے دیکھا تو گویا کسی نے میرے دل کی وائلن کو چھو لیا۔ اُس رات کی خاموشی کا ہر ذرہ بول اٹھا اور چیخ چیخ کر فریاد کرنے لگا۔ اور سات سمندروں، سات تہذیبوں، سات فیصلوں اور سات نفرتوں کو روندتی پھلانگتی ہوئی اُس بچے کی بھوکی، بلکتی، ہے قرار روح مجھ تک آئی اور اس زور سے میرے دل سے چمٹ گئی جیسے وہ ہمیشہ سے اُسکا حصہ تھی اور میرے ہاتھ بے اختیار اُس بچے کی جانب آٹھ گئے"۔ 

1 comment: