پشتون سیاست کا جلال و جمال،،،،، رشيد يوسفزئی
پشتون سیاست کا جلال و جمال ،،، رشید یوسفزئی
رشید یوسفزئی، فائل فوٹو |
دوران مطالعہ، دوبار مجھے ایک کرشماتی پشتون لیڈر کی ظہور کیلئے ایک حسرتناک احساس نے مغلوب کیا. اول: سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے خود نوشتوں Audacity of Hope پڑھتے ہوئے... اوبامہ نے لکھا تھا کہ "جدید دور میں سیاسی و جمہوری جدوجہد کیلئے لیڈر کو قانون شناس ہونا لازمی ہے. یہی وجہ ہے ماڈرن دور میں اعلی عالمی سیاسی لیڈرز اکثر وکیل ہیں." مہاتما گاندھی، ، نیلسن منڈیلا، نہرو، کلنٹن اور خود اوبامہ اس کے مبین دلیل ہیں..... یہ پڑھتے ہوئے دل میں خیال ایا کہ کاش پشتونوں کو خدا ایک ماہر قانون، صاحب بصیرت لیڈر عطا کرے....
دوسری بار: ایرانی ادیب و افسانہ نگار صادق ھدایت کے ایک افسانے میں پڑھ رہا تھا کہ ".... رہبر ملت باید صاحب جلال و جمال ہر دو باشد..قوم کا لیڈر حسن اور غیرت دونوں کا مالک ہونا چاہئے." ایک مختلف کنٹکسٹ میں یہی بات پشتو شاعر ڈاکٹر خالق زیار نے کی.... "پہ دنیا کے خو جلال دی یا جمال دی" . دنیا میں دو خوبیاں قابل قدر ہیں. یا حسن یا غیرت و جرات....
یہاں مجھے رہبر تحریک خان عبدالولی خان یاد ائے. شخصیت و ذہانت ہر دو کے لحاظ سے ولی خان ایک ائیڈیل شخصیت تھے.... قد و قامت، رنگ، انداز، ذہانت، فصاحت، بصیرت، جرات، عزیمت اگر گزشتہ صدی میں دنیا کے کسی بھی لیڈر میں بدرجہ اتم موجود تھے تو وہ خان عبدالولی خان تھے. عابدہ حسین ایک زمانے میں نیشنل پارٹی میں تھی. لکھتی ہے جب "میں نے پہلے بار خان عبدالولی خان کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا تو ایسا لگا جیسے یونانی دیوتاؤں کا سردار زیوس زمین پر اتر ایا ہو!" سیاست و تاریخ کے ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے میں ولی خان کی وفات کے بعد واقعی پشتونوں کو یتیم سمجھ رہا تھا. اپ شاید میری اس رائے سے اختلاف کریں گے... مگر اپنے مشاہدے اور مطالعے کی بناء پر میں ولی خان کو پشتون تاریخ میں ناقابل موزانہ سمجھتا ہوں...
صادق ھدایت کے "صاحب جلال و جمال" لیڈر کے مثال نے پھر میرے ذہن میں اذیت ناک حسرت تازہ کی.... کاش ولی خان کے بعد خدا پشتونوں کو ایک اور صاحب جلال و جمال لیڈر عطا کرے! "............ محسن داوڑ کو سنتے، دیکھتے مجھ پر ایک مستی آور مسرت طاری ہوتی ہے.... شاید خدا نے میری حسرت کو پورا کیا. محسن داوڑ پشتونوں کا جلال و جمال ہے.... پشتونوں کا حسن بھی اور رعب بھی..
محسن کی انٹری نے پشتون سیاست میں وکالت اور کرشمہ کی ہماری احساس محرومی ختم کی. جوان بھی ہے اور صاحب جلال و جمال بھی.... ہاتھ میں مقدس قلم ہے اور منہ میں ایک جاندار و پر اثر تعلیم یافتہ زبان بھی. عزم بھی رکھتا ہے اور حوصلہ و جرات بھی. عدم تشدد پر بھی ایمان رکھتا ہے اور تحریک و مزاحمت کے داؤ و پیچ بھی جانتا ہے .... قانون دان بھی ہے قانون کا پابند بھی. اور سیاست کے رموز بھی سمجھتا ہے اور فکر و نظر کی نزاکتوں سے بھی اشنا ہے اور عمل کے میدان کا بھی شہسوار ہے . اعصاب کے جنگ سے بھی واقف ہیں اور دل و دماغ دونوں کے صلاحیتوں سے بھی مسلح ہیں... زندان سے سربلند واپس آئے اور پارلیمان کے بساط پر چھاگئے..... علامہ اقبال نے افغانستان کے نوجوان پشتون بادشاہ غازی امان اللہ خان کے قصیدہ میں کہا تھا..... نوجوان و مثل پیران پختہ کار.... محسن بھی نوجوان و مثل پیران پختہ کار اور صاحب بصیرت .... اقبال نے یہ قصیدہ ایک پشتون ہیرو کیلئے لکھا جو اج محسن پر فٹ ہے.
ان چند الفاظ کے پس منظر میں ایک دو اور نکات بھی ہیں.
کل تک ایک انتشار پسند ٹولہ مشر منظور اور محسن بارے منفی تاثرات پھیلا رہے تھے. ان کو جواب مل گئی ہے. اپنے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے ان کو بھی تسلی رکھنی چاہئے. پشتونوں کا یہ لیڈرشپ جوان ہے.. غیر پختہ نہیں.....اور ان سے امید رکھنے والے صرف صبر کریں.... سب امیدیں بھر آئیں گے. صبح درخشاں دور نہیں. لیڈرز پر اعتماد رکھیں.... اور مثبت باتیں پھیلائیں..... گلے شکوے شکایت ہوں گے.... مگر پشتو قول ہے گلے د خپلو کیگی.... میری مشر اسفندیار ولی خان یا مشر محمود خان بارے کبھی اظہار شکوہ و شکایت ہوگی..... لیکن ہر بچہ اپنے بزرگوں سے شکوہ کی فطری حق رکھتا ہے...... تاہم غیر پشتون دنیا کے سامنے ہم سب ایک ہیں..... یاد رکھیں منظور بھی ہمارا ہے، محسن بھی.... علی وزیر بھی ہمارا ہے، ایمل اسفندیار بھی ہمارا.... اسفندیار خان بھی ہمارا ہے محمود خان بھی ہمارا..... خان عبدالولی خان بھی ہمارا ہے اور خان شہید و باچا خان بھی ہمارے..... یہ سب ہمارے پشتون کہکشاں کے ستارے ہیں.... اور ستارے جتنے زیادہ ہوں گے دنیا اتنی زیادہ منور و درخشاں ہوگی..... ہمیں سب پر ناز ہے.
رشید یوسفزئی
No comments