COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

حکومت کی پریشانی،،،، انصار یوسفزئی

 " حکومت کی پریشانی"  

تحریر: انصار یوسفزئی، نمل اسلام آباد









اس وقت فروری کا مہینہ چل

 رہا ہے لیکن اگر سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایسا لگ رہا ہے جیسا جون یا جولائی کا مہینہ چل رہا ہو کیوں کہ سیاسی پارہ اس وقت انتہا کو چھو رہی ہے- ملک میں سینیٹ انتخابات کی آمد آمد ہے- سیاسی جماعتیں اپنے نمائندگان کو ایوانِ بالا پہنچانے کیلے متحرک دکھائی دے رہی ہیں اور اس کیلے جوڑ توڑ عروج پر ہے- کونسی پارٹی کس مخالف پارٹی کی وکٹیں اڑائیں گی یہ تو تین مارچ کو ہی طے ہوگا، لیکن بظاہر طور حکمران جماعت ابھی سے مشکلات سے دوچار ہے- سینیٹ انتخابات کو لے کر حکومت تو پریشان ہے ہی اور اس پریشانی کو میں اپنے آج کے کالم میں کھل کر بیان بھی کروں گا کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے حکومت کے ہاں کیا کھچڑی پک رہی ہے لیکن اس کی طرف میں بعد میں آتا ہوں کیوں کہ سینیٹ انتخابات سے پہلے حکومت کیلے ایک اور دردِ سر حالیہ ضمنی انتخابات بھی تھے جس میں حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا- ضمنی انتخابات میں خاص کر ڈسکہ میں حکومت اور کچھ مقتدر حلقے " اندھا دھند " بے نقاب ہوگئے- تادم تحریر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسکہ الیکشن غیر آئینی قرار دے کر دوبارہ ووٹنگ کرانے کیلے 18 مارچ کی تاریخ دے دی- ایک بات یاد رکھیں یہ حکومت اور متعلقہ اداروں کی نا اہلی کی انتہا ہے- آپ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کی گئی نوٹیفکیشن بغور جائزہ پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کونسے کرداروں نے ڈسکہ الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی- حکومت اگر ایک طرف نوشہرہ اور وزیر آباد میں اپنی شکست پہ ماتم کدہ ہے تو دوسری طرف ڈسکہ الیکشن دوبارہ کرانے پر بھی پریشان نظر آرہی ہے- سوال بنتا ہے کہ اگر 18 مارچ کو ڈسکہ میں ایک مرتبہ پھر " دھند " پڑ گئی، رکیئے، مارچ میں کہا " دھند " ہوگی، لیکن اگر " سگنلز " ڈراپ ہوگئے تو ذمہ دار کون ہوگا؟ الیکشن کمیشن، حکومتِ وقت یا مقتدر حلقے؟ سوال یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں اکڑ بکڑ بمبے بو کرنے والوں کے نام کھل کر کیوں نہیں بتائیں؟ اور سوال یہ بھی ہے کہ قوم کے پیسے کا مفت میں جو ضیاع ہوگیا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو جواب طلب ہے- 


حالیہ ضمنی انتخابات میں ڈسکہ کے بعد جو سیٹ سب سے اہم تھی وہ نوشہرہ کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ تھی- نوشہرہ وزیر دفاع پرویز خٹک کی وجہ سے PTI کا گڑھ سمجھا جاتا ہے- وہاں PTI کے امیدوار کی شکست اس بات کا ثبوت ہے کہ عام آدمی تحریک انصاف کی حکومت سے بیزار ہو چکا ہے- PTI نے کسی بھی قسم کی خفت سے بچنے کیلے شکست کا سارا ملبہ وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک پر تھوک دیا- کہا کہ لیاقت خٹک کے اپنے بھائی پرویز خٹک سے اختلافات چل رہے تھے جس کی بنا پر انہوں نے اپنے ہم خیال لوگوں کو پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر اکسایا جبکہ لیاقت خٹک نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا کہ لوگوں نے میرے کہنے پر نہیں بلکہ اپنی طرف سے PTI کے خلاف ووٹ دیا ہے- آپ یہاں حکومت کی کنفیوژن ملاحظہ کیجئے گا کہ الیکشن کے ہارنے کے فوراً بعد حکمران جماعت کہتی ہے کہ PTI کے اپنوں نے PDM کے متفقہ امیدوار اختیار ولی کو ووٹ دیا ہے اس لیے وہ جیت گئے لیکن عمران خان کے دورہ پشاور کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش کہتے ہیں کہ PK-63 نوشہرہ میں PDM نے سائنسی بنیادوں پر دھاندلی کرائی ہے اس لیے وہ جیت گئے- سوال یہ ہے کہ حکومت آپ کی ہے لہٰذا کمشنر آپ کے تابع ہوگا، ڈپٹی کمشنر آپ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں گا، DIG آپ کیلے دن رات ایک کریں گے، DPO صاحب آپ استعمال کریں گے، دیگر اداروں کے لوگ آپ کیلے ہمہ وقت تیار اور سائنسی بنیادوں پر دھاندلی اپوزیشن کریں گی؟ واہ کمال ہے کامران بنگش صاحب آپ کی اس منطق پر- ضمنی انتخابات میں تو حکومت اور حکومت سے جڑیں کچھ کرداروں کی جتنی رسوائی ہونی تھی وہ تو ہو گئی لیکن سینیٹ انتخابات میں کیا ہونے جارہا ہے جس کی وجہ سے یہ مزید پریشان ہوں گے، آئیے جانتے ہیں- 


نام نہاد ریاستِ مدینہ کے علمبردار عمران خان پچھلے پانچ مہینوں سے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کی بات کرتے ہیں اور اس کیلے پسِ پردہ تگ و دوں بھی کر رہے تھے- پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو اوپن بیلٹ کی تجویز کس نے اور کیوں کر دی؟ تجویز جس نے بھی دی ہے لیکن بات بڑی حد تک واضح ہے کہ اس کے پیچھے کچھ بڑوں کی ایک بہت بڑی پلاننگ کارفرما ہے- اس وقت پنجاب میں عمران خان کے MPAs زیادہ تعداد میں ہیں، خیبر پختونخوا میں تو ان کی پوزیشن سب سے اچھی ہے اور بلوچستان میں بھی عمران خان کے اتحادیوں کا بول بالا ہیں- اسلام آباد میں بھی 10 سے 15 MNAs عمران خان کے اپوزیشن سے زیادہ ہو سکتے ہیں- لہٰذا سندھ کو چھوڑ کر وفاق اور باقی تینوں صوبوں میں عمران خان سینیٹ انتخابات کیلے آگے دکھائی دے رہے ہیں- اب اگر یہ اوپن بیلٹ سے ہونے تھے تو تحریک انصاف کے پورے کے پورے سینیٹرز آجانے تھے جس سے ایوان بالا میں ان کی پوزیشن مضبوط ہوتی جبکہ ایوان زیریں میں تو ان کا وزیر اعظم بیٹھا ہے لہٰذا دونوں ایوانوں میں ان کی اجاراداری ہوتی جس کا الٹیمیٹ فائدہ ان مخصوص لوگوں نے اٹھانا تھا جس نے عمران خان کو اوپن بیلٹ کی تجویز پیش کی ہے- لیکن اب شائد ایسا نا ہو جائے کیوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب آئین کے آرٹیکل 226 میں واضح ہے کہ سینیٹ انتخابات سیکرٹ بیلٹ سے ہی ہوں گے تو پھر بات ہی ختم- سیکرٹ بیلٹ سے حکومت پریشان ہے کیوں کہ ان کے اپنے MPAs اور MNAs بکنے والے ہیں جس کا فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو ہوگا- کچھ دنوں پہلے 2018 کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس سے واضح ہو گیا کہ تحریک انصاف کے 20 MPAs کس طرح بک گئے تھے؟ اور شنید یہ ہے کہ اب کی بار 20 سے زیادہ بک جائیں گے جس کا حکمران جماعت کو ماتم ہے اور یہی وجہ کے عمران خان اور کچھ دائیں بائیں لوگ اوپن بیلٹ کیلے بضد تھے- لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ حکومت اس لیے زیادہ پریشان ہے کیوں کہ ان کو ممبرز صوبائی اسمبلی کے بک جانے سے زیادہ ممبرز قومی اسمبلی کا خدشہ ہے کیوں کہ اپوزیشن کی تحریک PDM نے اپنا ایک متفقہ امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی شکل میں اتارا ہے جن کا مقابلہ حکومت کے حفیظ شیخ سے ہیں اور اگر PDM کے یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو یہ لوگ سینیٹ انتخابات کے بعد سپیکر اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کریں گی اور شائد کوئی اہم وکٹ گر جائے گی لیکن ایسا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا- میرا یہ بھی خیال ہے کہ مارچ میں حکومت مزید پریشانی سے دوچار ہوگی کیوں کہ 3 مارچ کو سینیٹ کا انتخاب ہونے جارہا ہے، 18 مارچ کو ڈسکہ کا ضمنی انتخاب ہوگا، مارچ کے آخر میں اپوزیشن کی تحریک PDM کا حکومت کے خلاف لانگ مارچ ہوگا اور اگر یوسف رضا گیلانی اپنی سیٹ جیت گئی تو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی جو  حکومت کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کریں گی۔

نوٹ: یہ کالم ڈیلی شہباز پشاور میں شائع ہو چکا ہے

  


No comments