COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

منظور پشتین اور پشتون تحفظ مومنٹ جیت چکے ہیں۔ (رشید یوسفزئی)

منظور پشتین اور پشتون تحفظ مومنٹ جیت چکے ہیں۔ 

  (رشید یوسفزئی)


پیدائش..... . 25 اکتوبر 1994...... عمر 26 سال.... جائے  پیدائش.... پاکستان بلکہ شاید ایشیا  کے پسماندہ ترین اور بدقسمت جنگ زدہ علاقوں میں سے ایک "سروکئی"، وزیرستان... والد عبدالودود صاحب ایک معمولی سرکاری سکول ٹیچر ... یہ آج دنیا کے سب سے زیادہ مشہور و   مقبول ہیومن رائٹس علمبردار منظور پشتون کی تاریخی و علاقائی محل وقوع ہے..... سفر زندگی life trajectory... سولہ سترہ سال عمر تک  چار دفعہ  ارمی و طالبان کی نوراکشتی میں نقل مکانی و پناہ گزینی پر مجبور ہوتا رہا. وزیرستان کے کاٹتے ہوئے سردی میں غریب ماں باپ اور سات بہن بھائیوں کے ساتھ کئی کئی راتیں خالی پیٹ ڈی آئی خان اور بنوں کے پناگزین کیمپوں تک کبھی پیدل، کبھی خستہ حال فلائنگ کوچوں، ڈاٹسنوں اور منی ٹرکوں کا سفر کرتارہا. اسی در بدری اور بے خانمانی میں بنوں، کرک اور ڈی ائی خان میں تعلیم حاصل کی..... اور ڈی وی ایم کی ڈگری لی. دو ہزار نو میں جبری نقل مکانی میں ڈی آئی خان آرہا تھا. چیک پوسٹ پر ملٹری والے چند دوسرے نقل مکانی کرنے والے پشتون  عورتوں سے بدسلوکی کر رپے تھے...... منظور نے احتجاج کی..... ملٹری والوں نے پکڑ کر چودہ پندرہ سالہ منظور پر  ایسی تشدد کی کہ اردگرد کھڑے 

عورتوں کے آنسوؤں نکل ائے....






لڑکپن سے عنفوانِ شباب تک اردگرد جہاں بھی نظر دوڑائی. پشتونوں کی حالت زار نظر ائی.... طالبان کی خونریزی دیکھی، ان مقدس درندوں کی دھشتگردی و بدمعاشی اور قتل و غارت دیکھے.... مقدس وردی  والوں کی بربریت دیکھی..... چیک پوسٹوں، بلکہ اپنے گھروں میں پشتون دوشیزاؤں، ماؤں بہنوں کو بے عزت ہوتے، خوددار پشتون نوجوانوں کو روڈوں اور  چیک پوسٹوں پر دنیا جہان کے سامنے غیر پشتون سپاہیوں کے نادرشاہی حکم سے مرغا بنتے اور مینڈک بنتے دیکھا، معزز پشتون  بزرگوں کو   کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کے ساتھ ہاتھ اٹھائے، قطاروں میں ذلیل ہوتے دیکھا... دھماکوں میں گاؤں کے گاؤں  ملیا میٹ ہوتے دیکھے..... آپریشنز کے نام سے مقامی  غیرت مند مٹی سے تعمیر شدہ غریب پشتونو کے پیارے پیارے گھر مسمار ہوتے دیکھے.... وسیلہ رزق اور کاروبار تباہ ہوتے دیکھے... پشتونوں کی لاشیں، عورتوں کی چھاتیاں، جوان مرگ زلمیوں کے  کٹے بازو اور ٹانگیں ہوا میں اڑتے دیکھے ..... اور ملک کے سیاہ و سفید پر قابض  ان سب جنایات  کے اصل باعث اور مجرم بھی فرعونیت، تکبر، نخوت اور دبدبے کے ساتھ بے پروائی سے عیش کرتے  دیکھے.......... عام ادمی کنفیوز یا خائف تھا.... لالچ زدہ اور مصلحتوں کے مارے ہوئے لیڈروں کے زبانوں پر تالے تھے..... یا وہ مجبور تھے، یا خوف زدہ... یا اقتدار کی ھوس غالب تھی...... تاہم یہیں ایک نوجوان منظور پشتون نہ کنفیوز تھا، نہ خوفزدہ...  حوصلہ نہیں ھارا، ضمیر کی للکار نہیں دبائی، جرات اور بڑھی.....سیکھا، مشاہدہ و تجزیہ کیا، تجربہ کیا.... ہر سو جرائم نوٹ کئے....نتیجہ یہ اخذ کیا کہ پر امن  مزاحمت، پشتونوں کی بیداری اور اتحاد ہی واحد حل ہیں ... اواز اٹھائی......  پشتونوں کی بیداری کا مشن سر پر لیا.... گھر گھر، گاوں گاوں، شہر شہر اپنا دعوت لے کے گیا..... ایک بار اسی پشتون بیداری کی گشت میں چودہ مہینے مسلسل گھر سے دور رہا..... فروتنی، نرم گوئی، جرات، خلوص، جذبہ اور فہم و فراست سے مسلح ہے..... جہاں بڑے بڑے سیاسی گرگ ناکام رہے... منظور سرخرو ہوکے رہا..... دو سال قبل کی بات ہے..... رمضان کی ایک رات منظور گھر تشریف لائے تھے.... تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے.... ایک مذہبی پارٹی کے سربراہ عمرے پر تھے.... رابطہ ہوا.... دو تین باتوں کے بعد کہا میں فلاں دن عمرے سے واپس آرہا ہوں..... کسی طریقے سے منظور  کو مطمئن کریں کہ مبارک دینے کی بہانے میرے گھر ائے! .... حیرت ہوئی... ایک دو سوال کئے... کہنے لگے، "رشید خان، واللہ جو سیاسی جماعتیں سو سال میں نہ کر سکے منظور نے دو تین سالوں میں کر دکھایا!"....

  

   چند دنوں سے دیکھ رہاہوں کچھ اپنے ہی منظور کے کار ہائے نمایاں بارے سوال کر رہے ہیں.... (اس تحریر میں میں اپنوں سے مخاطب ہوں اور کسی کی دل آزاری قطعا مقصود نہیں.... روئے سخن کسی جانب ہو تو رو سیاہ) .... اور یہ ناہنجار اپنے جن کو منظور کے جرات و استقلال کے صدقے عزت کی زندگی ملی اج منفی پروپیگنڈہ کرکے بطور مثال کبھی بلوچ سردار کی قربانی کا مثال دے رہیں ہیں تو کبھی کسی اور انقلابی یا نیشنلسٹ لیڈر کی اور منظور کی قربانیوں اور ااستعداد پر طنز کر رہے ہیں ..... موزانہ اگر باعثِ دلآزاری نہ ہو تو موزانہ کریں..... ملک کی تمام موجودہ بزرگ لیڈرز کی عمریں منظور کے والد عبدالودود استاد سے زیادہ ہیں... مگر بیرونی دنیا میں ان کی شہرت و مقبولیت منظور کے سامنے ھیچ ہیں.... ملک کی نوخیز لیڈرشپ ایک طویل سیاسی و خاندانی سرمائے کے وارث ہیں...... مریم نواز جس کو ائندہ حکومت میں ہر حال میں وزیراعظم بنانے کیلئے مولانا فضل الرحمن اج  ہی سے پی ڈی ایم کے نام سے  الیکشن کیمپین چلا رہے ہیں، کی تاریخ پیدائش 28 اکتوبر 1973 ہے. سبق  Convent of Jesus and Mary  کے بعد کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھی ہے. عمر منظور کی ماں سے چند سال زیادہ ہے.... بلاول زرداری صاب کی تاریخ پیدائش 21 ستمبر 1988 ہے. سبق لندن میں کرائسٹ چرچ Christ Church اور اسکے بعد آکسفرڈ یونیورسٹی میں پڑھی ہے..... ہمارے اپنے ایمل اسفندیار صاب: تاریخ پیدائش 1986... تعلیم حاصل کی ایچی سن میں..... مکرر عرض ہے کہ میں ان سے منفی موازنہ نہیں کر رہا..... ان سب کے برعکس منظور پشتون.... عمر کیا ہے؟....... خاندان میں دور دور تک کوئی وزیر و بیوروکریٹ کیا، کونسلر یا سترہ گریڈ افسر تک نہیں..... تعلیم کیلئے اس ظالم رہاست اور سفاک ماحول و حالات نے موقع کب دیا...... وژن اور جرات اور مقبولیت.... دیکھیں.... دھمکیوں سے نہیں ہارا. ہتھکڑیوں سے نہیں ڈرا، ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کے الزامات اور گالیوں کو خاطر میں نہیں لایا..... اور اچیومنٹس: اپ اور مجھے زبان دی. جرات بخشی، اواز اور نعرہ دیا، عزت دی اور عزت سے زندگی دی.... اج پختون خوا میں ایک چیک پوسٹ نہیں..... آج طاقتور ادارے ائی جی سندھ کو اٹھا سکتے ہیں.... پنجاب کے استاد اور  جج اور وکیل کو اٹھا سکتے ہیں.... بلوچستان کے ایم پی اے اور  وزیر کو غائب کرسکتے ہیں..... مگر ایک پشتون ریڑھی بان اور مزدور  کو ہاتھ لگاتے ہوئے ہزار بار سوچیں گے....... یہ منظور پشتون کے اچیومنٹس میں سے صرف ایک دو ہیں.....

  

   آج دنیا اس 26 سالہ نوجوان کو پاکستان کے کسی بھی سیاسی و سماجی لیڈر سے زیادہ جانتی اور تسلیم کرتی  ہے.... آج اپ کے سابق و حالیہ وزرائے اعظم سے باہر کی دنیا بے خبر ہے.... اپ کے طاقتور ترین ارمی چیف کو باہر دنیا کے دو صحافی بمشکل جانتے ہوں گے...... لیکن منظور پشتون کا نام ایک جرات و استقلال کا  استعارہ بن گیا ہے.... اج منظور پشتون کا  انسانی حقوق  کا ایک سمبل بن گیا ہے...  آج منظور پشتون کا نام ایک برانڈ بن گیا ہے... کم و بیش سال قبل منظور پشتون کو اس فاشسٹ ریاست نے ہتھکڑیاں لگائے..... دنیا احتجاج کیلئے اٹھ گئ.... میرے موبائل میں محفوظ زیر نظر چند سکرین شاٹس منظور کی گرفتاری پر عالمی خبررساں اداروں اور کویت ٹائمز سے لیکر نیویارک ٹائمز تک عالمی اخبارات کے شہ سرخیاں ہیں.... دنیا کے کونسے لیڈر کی قسمت میں ایسی شہرت و مقبولیت ائی ہے؟ ..... یہ سکرین شاٹس فقط دو سہ چار نمونہ از خروار ہیں.... منظور کا نام اتنا پھیل گیا ہے کہ ہر جگہ مقامی تلفظ اختیار کر گیا....   مصر و اردن کے  عربی اخبارات میں "منظور البشتین" کے نام کے شہ سرخیوں کے ساتھ اس کے تصاویر ابھی بھی میرے ذہن میں ہیں.... مجھے ابھی بھی یاد ہے ایران کے فارسی اخبار "روزنامہء جمہوری اسلامی" نے نام کے پس و پیش غلط کرکے شہ سرخی لگائی تھی... "اقائے پشتون احمد منظور رہبر حقوق بشر در پاکستان دستگير شد"........ یہ مقبولیت و شہرت بے وجہ نہیں.... بے مثال ضرور ہیں. 

  

 منظور پشتون باہر دنیا میں میری اور اپ کی شناخت بن گئی ہے.... وہ جو فلسطینی شاعر محمود درویش نے "بطاقۃ الہویہ" یا Identity Card نظم لکھا تھا کہ "سجل... انا عربئ...." وہی" بطاقۃ الہویہ" اج پشتون کیلئے" سجل انا منظور" اور منظور پشتون کا ہم قوم ہونا ہے.... اج باہر کی دنیا خود ہمیں منظور ہشتون والی  جدید و طاقتور  سمارٹ کارڈ دیتی ہے.... گزشتہ دنوں ایک بنگالی ادیب و  نقاد سے گفتگو ہو رہی تھی. تعارف میں کہا پشتون ہوں. فورا مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں کہا... اوکے اوکے یو ار فالور اف منجور پشتین! "........ یاد رکھیں منظور حال میں بھی امر ہے اور مستقبل میں بھی.... لٹریچر میں بھی اور تاریخ میں بھی.... 

     

     یہ نام اور کام...... واقعی معجزہ لگتا ہے...... اپ نہیں مطمئن تو پھر اپ کو کوئی نیٹشے والا سپرمین Superman یا یونانی دیومالا Greek Mythology والا ہرکولیس چاہئے ہوگا..... ہم ایسی مجنونانہ خبط اور غیر حقیقی ائیڈیلزم کے شکار نہیں.... ہم انسان ہیں.... اور بطور انسانی لیڈر منظور کے کام و نام سے مطمئن.... منظور نہ کسی بوڑھے سیاست دان سے قابل موازنہ ہے... نہ کسی اور سماجی سورما سے..... منظور آپ ہیں... منظور میں ہوں. منظور پشتون قوم ہے. منظور ہماری تاریخ، غیرت اور ثقافت ہے... منظور ہمیں منظور ہے.... اور بس. 


   کئی ایک برخود غلط، تعصب  یا غلط فہمی کے شکار ڈیجٹل لوز موشن  Digital Loose Motion کے مریض معروضی حقائق سے آنکھیں چرا کر  منظور بارے مسلسل منفی سوال اٹھاتے ہیں..... میں پوچھتا ہوں اپ کا عمر یا تو منظور کی برابر ہے یا زیادہ..... معاشی، سماجی و تعلیمی مواقع اپ کو منظور سے ہزار بار بہتر ملے ہیں... اپ خود کو منظور  سے موازنہ کریں... پہلے کچھ نہیں کرسکیں .. بسم اللہ کریں اگے آئیں.... آج اپنے جوہر دکھائیں......

 

   پشتونوں اور پی ٹی ایم میں کوئی اختلاف نہیں... اگر ہے تو قطعا درخور اعتنا نہیں... خلوص والا بندہ ناراض ہوکر مخالف سمت نہیں جاتا..... یہ کچے ذہنیت کا نتیجہ ہے... ذہنی بلوغت والے سنجیدہ لوگ ناراض ہوکر عالمی حجروں میں گالیاں نہیں دیتے. خاموشی سے ایک سائڈ پر چلے جاتے ہیں.... ہاں ایک دو  واقعی سنجیدہ مخلص ساتھی  اگر سوشل میڈیا پر اختلاف کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو محبت اور خلوص سے  راضی کرنا ہے. گالیاں اور طنز و طعنے جواب نہیں.... نہ منظور کا طرز عمل ہے نہ ان کے پیروکاروں کا.... جو قابل قدر ساتھی  ناراض ہیں... ان کو راضی کریں.... ان پر جرگہ کریں.... ان کی منت کریں... یاد رکھیں عاجزی، محبت اور خلوص انسانی رشتوں میں درپیش ہر ناخوشگوار رکاوٹ کا حل ہے.... جہاں محبت اور انکساری ناکام ہو تو سمجھیں کہ اپ کے خلوص میں فرق ہے.... جہاں محبت خلوص اور عاجزی کا نسخہ ناکام ہو اس کا ایک ہی حل ہے: خلوص اور محبت کی ڈوز dose اور زیادہ کریں......


موبائل پر جلدی جلدی لکھ رہا ہوں. خیالات کی ہجوم ہے اور منطقی ترتیب و تسلسل ممکن نہیں... ایک دو  اور نکات عرض ہیں..... قومی  اتفاق اور اتحاد ایک اجتماعی کوشش اور ایک ارتقائ عمل ہے... مقبولیت وقت کی تابع ہوتی ہے.... تاہم یہاں بھی منظور ملکی سطح کے تمام لیڈرز سے اگے ہیں.... پشتونوں کی قابل قدر تعداد جمع کیا.... عام ادمی سے لیکر طالب علم، استاد و دانشور تک ساتھ ملائے... اور اپ کے علم میں ہوگا یتیم و بیوہ عورتوں نے سلائی مشین چلا کر چند ٹکے کمائے اور  منظور پشتون کو اپ کی  تحریک کیلئے چندہ دیا..... مقبولیت دیکھیں.... پشتون دوشیزاؤں کے تازہ و نوجوان لبوں پر  منظور کیلئے ٹپے گائے جاتے ہیں......پوری قوم اس کی لئے گیت اور سندرے گارہی ہیں..... ایک مثال عرض ہے.... مسحورکن اواز و انداز کے مالک   پشتون سنگر کرن خان  نے بہت اچھے اور معروف شعرا کے غزل گائے... چند مہینے قبل انہوں نے ایک گمنام شاعر کی غزل گائی. اس غزل کا ایک شعر منظور بارے ہے کہ:


باچا دغہ سڑے د فرعونیت خلاف را اوتی

    د زڑہ پہ سلطنت کی مقرر ئ کڑم کہ نہ

  

جناب یہ شخص وقت کے فرعون کے خلاف اٹھا ہے. بتاؤ اسے دل کا مالک بناؤں.....

    

   آج یو ٹیوب پر دیکھ رہا تھا. یہ غزل تمام شعراء کے گائے ہگئے تخلیقات سے ہزار گنا زیادہ مقبول ہوگئی ہے... منظور بارے اسی ایک شعر کے صدقے یہ غزل اڑتالیس لاکھ لوگوں نے سنی ہے!...... اس سے  مقبولیت کیا چیز ہوگی......

  

    منظور پشتون اور پشتون تحفظ مومنٹ جیت چکے ہیں... سات تاریخ کے  پشاور جلسے پر محنت و توجہ مرکوز کریں.... فتح اپ ہی کا ہے.

 

  رشید یوسفزئی

No comments