مذہب کے نام پر خون کا پیاسا یہ سماج مریضانہ حد تک جذباتیت کا شکار ہو چکا ہے۔ ،،،،رشید یوسفزئی
رشید یوسفزئی فایل فوٹو |
ہماری تاریخ میں سب سے دلخراش ٹریجڈی کا یہ سٹیج میرے گھر سے چند میٹر فاصلے پر تھا
اول تصویر قابل تعارف نہیں. دوسری تصویر اسی نوجوان کی لاش پر
دوپایہ درندوں کی ایک ہجوم کی اچھل کود ہے.ایک نوجوان طالب علم کی لاش پر اچھلنے
والے زیر نظر نچلے تصویر ان غنڈوں اور ٹھگوں کی ہے جنہوں نے عدالت میں اپنی
معصومیت کے دعوے کئے رہا ہوئے. تو جیل گیٹ کے باپر فخریہ اعلان کیا کہ ہم نے ہی
مشال کو قتل کیا اور ہمیں اس فخر ہے. ایسی درندگی کے بعد ایسی ماسٹر پیس منافقت کی
مثال موجود تاریخ میں اپ کو بمشکل ملے گی
مذہب کے نام پر خون کا پیاسا یہ سماج مریضانہ حد تک جذباتیت کا
شکار ہو چکا ہے۔ جب بے دین اور جاہل سماج کی غالب اکثریت شعائرِ دین کے نام پہ
انسانی خون کا پیاسا ہو تو ایسا سماج مجموعی طور پر محض قاتل نہیں ہوتا، بلکہ خود
بطور سماج اجتماعی خودکشی کے تختے پر کھڑا ہوتا ہے۔
ایسے قوانین اور مقدس اقدار جن کا سماج میں باہم عملی انسانی و
سماجی رشتوں اور ریاست و عوام کے درمیان کے بنیادی معاہدات سے کوئ تعلق ہی نہ ہو
تو ایسے غیر فطری قوانین کا ناجائز استعمال پھر ”فطری“ بن جاتا ہے۔ اُن قوانین کا
وجود ہی جب غیر اصولی اور انسان دشمن ہو تو پھر ان کا استعمال کیا معنی؟
اِسی لیے مشال خان کا قتل ایک مشال کا قتل نہیں ہے۔ بلکہ یہ سماج
کی اجتماعی خودکشی کی جانب مزید ایک قدم اور ریاست کی جانب سے باشعور پشتون نوجوان
اور پشتون قوم کے قتل کا بہیمانہ تسلسل ہے۔ اور اُس دن یہ واضح ہو گیا تھا جب بری
کیے گئے مشال کے قاتلوں کا رشکئی انٹرچینج پر وحشیوں کے ایک ہجوم نے استقبال کیا
اور قاتلین ببانگِ دہل اپنے جرم کا فخریہ اعتراف کر کے ریاست کو اس کے مسلط کردہ
شدت پسندانہ ذہنیت کی کامیابی کی نوید سنا رہے تھے!
مگر یہی بات اب تک غالب بیمار ذہنیت نہیں سمجھ پا رہی کہ اِس ریاست
کا اثاثہ مشال جیسے باشعور، زندہ فکر، ذہین و فطین نوجوان کبھی نہیں رہے ہیں۔ اس
ریاست کا حقیقی اثاثہ یہی وحشی طینت، دہشت پرست مشتعل ہجوم ہے جو ایک پھول جیسے
چہرے کو اپنے غلیظ جوتوں، ڈنڈوں اور بھاری بھر کم پتھروں تلے مسخ کر کے اِس غیر
فطری ریاست کے غیر فطری اور انسان دشمن بیانیہ کو مستحکم بنا رہے۔ اِن بدبخت غلام
ذہنوں نے ریاستی جوتے پہن کر مشال کے معصوم و مقدس بدن کی صورت میں اپنے پشتون قوم
کے وجود کو مَسلا تھا۔ انہوں نے صرف مشال کے نہیں، بلکہ پشتون قوم اور علم و اگاہی
کے جوان اور خوبصورت اعضا کو بے دردی و بے حسی سے کُچلنے کی بعد اس کی بے عزتی کی. جابر ریاستی دیو کے
کندھوں پر بیٹھ کر ان غلاموں نے اپنی ہی قوم کے سینے کو چاک چاک کیا تھا۔ ایسے عقل
دشمن، انسانیت دشمن، علم و شعور دشمن، شقی القلب، درندہ وحشی، ریاستی پروپیگنڈے کے
دماغی غلام کسی قوم میں ہوں..... تو حاکم ریاست کے لیے اِس سے بڑی خوش بختی کی
علامت اور کیا ہو سکتی ہے۔
اور ریاست کو معلوم ہے کہ اس نے اپنے مفادات کی خاطر ایسی مہلک اور
کارگر ذہنیت پیدا کر لی ہے کہ اس ذہنیت کو کہاں عارضی طور پر لگام ڈالنا ہے اور
کہاں اس کے سامنے چارہ رکھنا ہے، یہ اسے بخوبی معلوم ہے۔ ایسی درندوں کی ہجوم کو
ہانکنے کی ہنر ریاستی بدمعاشوں کو اتی ہے... نتیجتاً.... مشال خان قتل کیس میں
معدوے چند کو سزاۓ موت اور عمر قید وغیرہ کی سزائیں سنا کر بقایا اکثریت کو بری کر
کے ریاست نے اس تسلسل کو روکنے کے بجاۓ جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ بری کیے جانے
والے انہی غنڈوں اور ٹھگوں، قاتلوں کی سرپرستی کرنے والے دین و مذہب کے ٹھیکہ
داروں کو چار چار کلاشنکوف بمع لائسنس دئیے گئے جو مشال شہید کے لاچار مگر باحوصلہ
باپ کو منبر و محراب سے گالیاں دھمکیاں دیتے نہیں تھکتے.... اپنے ہمسائیگی میں
بچشم خود دیکھا کہ نیشنلزم کے نام پر پشتونوں سے ووٹ لینے والوں اور حکومتوں اور وزراتوں
کی حصول کیلئے دیوانہ ہونے والے سیاسی ضمیر فرشوں، ملت فروشوں نے بعد از شہادت
مشال شہید کو معتوب قرار دلوانے کیلئے انہیں مذہبی غنڈوں کو پمفلٹس لکھنے کیلئے
لاکھوں روپوں سے نوازا گیا۔
اور ان سب کے باوجود یہ ججز اور عدلیہ بھی اندھے بہرے ہیں۔ عبدالولی
خان یونیورسٹی میں ایک معصوم اور نوجوان کلی کے جسم پر بربریت اور رشکئ انٹرچنج پر
منافقانہ فخریہ دعووں کے ویڈیوز سے کس نے نہیں دیکھے؟ کون ایسا اندھا بہرا ان
ثبوتوں سے ناشنا ہوسکتا ہے؟.... سوائے یہاں کے ریاستی قانونی مہروں کے. ہاں یہ بھی
ایک حقیقت ہے ان ججز میں سے کسی نے آنکھیں یا کان کھولنے کی کوشش کی تو ان مائی
لارڈوں اور یور ہانرو کو معلوم ہے کہ جب جسٹس عارف اقبال بھٹی جیسا نڈر جج، راشد
رحمان جیسا بہادر وکیل اور ایک صوبے کا گورنر ان مذہبی درندوں کے ہاتھوں بچ نہیں
سکتا تو اِن ججز کی کیا اوقات؟ اور ریاستی فیصلہ ساز قوتوں سے بات کو ہٹا کر عدلیہ
کی طرف کھینچ لانا بھی اصل مسئلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں تو ریاست
نہ صرف قاتلوں مجرموں کی پشت پناہ ہے بلکہ خود سب سے بڑا مجرم و قاتل ہے.... اصل
طاقتور قاتل اور مجرم وہی ہیں جو ان قوانین کے آرکیٹکٹ اور پاسدار ہیں. جو اِس
باسی انسان دشمن ذہنیت کو پروان چڑھاتے رہنے کے ذمے دار ہیں۔ عدلیہ کو جو اپنی
ہتھیلی میں رکھ کر ایسے اُلٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ جو اِس سماج، انسانیت اور پشتون
قوم کے دشمن ہیں۔۔۔ وہی مشال کے قتل کے ذمے دار ہیں۔
مشال شہید کا مقدمہ جاری ہے. ان کے مثال کوہ بلند حوصلہ باپ اقبال
لالا اور ہر محاذ پر جرآت و بہادری اور بے لوثی و خلوص سے پشتون مقدمہ لڑنے والے
ممتاز ماہر قانون شہاب خٹک
قابل تحسین و افرین ہیں کہ وہ نہ تھکتے ہیں، نہ ڈرتے ہیں.....
انسانیت، انسانی اقدار، شعور و عدل ان سب کیساتھ ہیں
اور مشال قتل کیس میں ضمانت پر بری کیے گئے مجرمین کی ضمانت کے
خلاف دائر کیے گئے اپیل پر آنے والے کسی طرح کے فیصلے سے بھی مشال کی صورت میں
پشتون قوم کو پہنچاۓ گئے نقصان کا ازالہ قطعاً نہیں ہو سکتا۔ یہ معاملے ایک فیصلے
کا نہیں، بلکہ اُن جابرانہ ریاستی پالیسیز، انسانیت دشمن ذہن سازی اور پشتون مخالف
ظالمانہ اقدامات کا ہے کہ جن کی وجہ سے آج پشتون قوم دو دھاری تلوار کے ساۓ میں
سِسک رہی ہے۔
رشید یوسفزئی
No comments