Takkar massacre 1930
اپریل 1930 میں پشاور کے قصہ خوانی پشاور میں ایک پُرتشدد واقعہ پیش آیا، جس میں احتجاج کرنے والے شہریوں پر برطانوی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے قریب 100 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس سانحے میں ہونے والے قتل عام کے بعد خدائی خدمت گار تحریک نے زور پکڑا۔
خدائی خدمتگاروں کے عوام میں مقبولیت اور حمایت نے برطانوی راج کو خوف زدہ کردیا اور انہوں نے تحریک کو کمزور کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی۔ پولیس نے تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ پشاور اور اتمانزئی کے بعد، ٹکر اس تحریک کا مضبوط گڑھ تھا( ٹکر ضلع مردان کے ایک گاوں کا نام ہے) اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ اس تحریک کو کچلنے کے لئے تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کررہا تھے۔
26 مئی 1930 کو برطانوی پولیس افسر مرفی گرفتاری کرنے کے لئے اپنی فورس کے ہمراہ ٹکر پہنچا۔
گاؤں کے لوگوں نے پولیس کے خلاف مزاحمت کی اور مرفی کو بتایا کہ وہ کل اپنے رہنماؤں کو پولیس اسٹیشن لے آئیں گے۔ 27 مئی کو پانچ رہنماؤں ملک مسم خان، سالار شمروز خان، ملک خان بادشاہ، پیر شہزادہ اور ملک عبد المجید کے ساتھ کئی گاؤں والے ایک جلوس کے شکل میں اپنی گرفتاری کیلئے مردان چلے گئے۔
پولیس نے گجر گڑھی کے قریب دیہاتیوں کو روک لیا اور انہیں مطلوبہ افراد حوالے کرنے اور اپنے گاؤں واپس جانے کا حکم دیا۔ گاؤں والے اصرار کر رہے تھے کہ وہ اپنے قائدین کو پولیس اسٹیشن تک چھوڑ کے آئیں گے۔
برطانوی افواج نے انہیں جلوس میں مردان تک نہیں پہنچنے دیا اور انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا۔ اس نے دونوں فریقوں کے مابین تصادم شروع کردیا۔ انگریز آفیسر مرفی نے پولیس کو حکم دیا کہ ہر حال میں دیہاتیوں کو منتشر کیا جائے۔ جس کے بعد سامراج کے سپاہیوں نے لوگوں پر تشدد شروع کیا۔
مرفی گھوڑے پر سوار تھے۔ کہ اچانک گولیوں کی آوازیں سنائی دینے لگی اور مرفی اپنے گھوڑے سے نیچے گر گیا۔ جلوس میں شامل خواتین نے اس پر پانی سے بھرے گھڑے پھینکنا شروع کردیئے جس کی وجہ سے مرفی کی موت ہوگئی۔
28 مئی کو مرفی کے موت کی بعد، برطانوی فوجیوں نے ٹکر کا محاصرہ کیا اور اس گاؤں والوں پر بدترین قسم کی بربریت اور تشدد کیا۔ ہر طرف تشدد تھا۔ خواتین اور بچوں کو مارا پیٹا۔ یہاں تک کہ انگریزوں نے گاؤں والوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے درختوں پر فائرنگ کی، اور ان لوگوں پر بھی جو محاصرے میں رہنے والوں کی مدد کے لئے ٹکر جارہے تھے۔
اس سانحہ میں 70 افراد شھید اور 150 کے قریب زحمی ہوئے تھے۔
یہ قتل عام اج بھی پشتو لوک گانوں میں یاد کیا جاتا ہے۔
"په ټکر جنګ دے گولۍ وریږي
اونې پانڑې رژ وینه"
"تۀ راته ووايه چې څۀ پۀ کربلا کښې شوي
ما پۀ ټکر او پۀ بابړه تبصره راوړې"
"ارواښاد صاحب شاه صابر"
محمد عزیر عظمت۔
No comments