COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

مشال خان کی برسی مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت

مشال خان کی برسی، مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشب

اج تیراہ اپریل ہے ۔ مشال خان کے برسی یہ دن پاکستان میں دو طبقے مناتے ہیں ایک اکثریتی طبقہ جو اس ظلم کے دن کو یوم فتح کے طور پر یاد کرتے ہیں اور ایک امن پسند اور شعور رکھنے والا طبقہ جو اس دن کو ظلم اور بربریت کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اگر ہم تاریخ پر نظر رکھے تو اسی کے دہائی میں اس مزہبی انتہا پسندی کو ایک آمر نے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کیلئے ہوا دیا تھا جو اج تک اسی جوش و خروش کے ساتھ اپنے دوام رکھے ہوئے ہیں۔ اج بھی اگر ریاست یا مقتدر حلقوں کو ضرورت پڑی تو کبھی طاہر القادری صاحب تو کبھی رضوی صاحب کے شکل میں ہمیشہ مذہبی لوگوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہےہیں۔ اس مذہبی انتہا پسندی کا سب سے زیادہ اثر خیبر پختون خواہ پر ہوا۔ کبھی افغان جہاد کے نام پر تو کبھی کرم ایجنسی میں سنی شیعہ فسادات کے نام پر، اسی طرح پختون خواہ کے لوگ ملا ازم کے چنگل میں پھنس گئے۔ میرا تعلق پختون خواہ کے ایک نیم پسماندہ علاقے ضلع چارسدہ کے تحصیل شبقدر سے ہے۔ صرف اگر یہاں کے مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت پر بات کرے تو میں جو لکھ رہا ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ کل رات کو میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں شبقدر کے مجلس تحفظ ختم نبوت کے کرتا دھرتا اور جمیعت علماء اسلام سے وابستہ ایک نامی گرامی مفتی صاحب ایک دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے طالبعلم کو سنگین نتائج بھگتنے کے دھمکی دے رہا تھا بات کچھ یوں تھا کہ اس طالبعلم نے یوٹیوب پر ایک ویڈیوں اپلوڈ کی تھی ہر کسی کا اپنا نظریہ اور سوچ ہوتا ہے اور اختلاف بھی ہر کسی کا حق ہے۔ لیکن کسی کو دھمکی دینا کہا کہ اسلام ہے۔ مفتی صاحب اس ویڈیو میں کہتا ہے کہ سدھر جاو ورنہ پورا تحصیل شبقدر اپکے گھر میں ہوگا اور پھر حکومت اور پولیس بھی ہمیں نہیں روک سکیں گی۔ اور جس کو یہ دھمکی دی گئ ہے اس پر پہلے بھی قادیانی ہونے کے الزام لگایا تھا ایک مذہبی انتہا پسند نے۔ اسی طرح اگر میں اپنے علاقے میں عدم برداشت اور جہالت کے بارے میں لکھو تو پڑھو پچھلے ہفتے میں نے اپنے علاقے میں ایک NGO کے مدد سے مساجد مین صابن لگائے تو ایک مولوی صاحب نے اپنے مسجد سے وہ صابن باہر پھینک دیا کہ یہ NGO والوں نے لگائے ہے اور یہ استعمال کرنا حرام ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ آخر کب تک ہم پختون اس مذہبی انتہا پسندوں کے چنگل میں گرفتار رہینگے؟ اور یہ سوال ہر پاکستانی خاص کر ہر پختون کو اپنے اپ سے پوچھنا چاہیئے۔

1 comment:


  1. جی بلکل میں پشتو میں زیادہ لکھتا ہوں اسلئے اردو میں زیادہ اچھا نہیں ہوں

    ReplyDelete