COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

میرا ذوقِ مطالعہ اور کتابوں کا انتخاب،،،، ڈاکٹر شہزاد خان


 میرا ذوقِ مطالعہ اور کتابوں کا انتخاب۔

         
ڈاکٹر شہزاد فائل فوٹو






اج لایبریری میں ایک دوست اپنے دوسرے دوست کے ساتھ میرا تعارف کرا رہا تھا کہ لائبریری انتظامیہ نے کہا کہ کچھ نئے کتاب بھی ائے ہیں ، اپ انہیں دیکھ بھی لیں ( چارسدہ گورنمنٹ کالج کے ساتھ نزدیک اکرام اللہ گران لائبریری والے میرے ذوق مطالعہ کو دیکھتے ہوئے جب بھی کوئ نیا کتاب اتا یے تو کال کرکے بھی اگاہ کرتے ہیں ) ۔ تو ساتھ میں یہ دو دوست بھی ہولئے کہ نیا ایا ہوا سٹاک دیکھ لیتے ہیں ۔ 

      بہت ہی کمال کے کتابیں لائے تھے لیکن نسیم حجازی اور قدرت اللہ شہاب کے بھی کچھ کتب تھے ۔ میں نے لائبریری والوں سے پوچھا کہ یرہ یہ نسیم حجازی اور قدرت اللہ شہاب کے کتابیں کافی وافر مقدار میں پہلے بھی موجود ہیں ۔ مزید کی ضرورت کیونکر پیش آئی ؟؟؟؟ تو جواب ملا کہ یہ کتابیں تو ھم نے بھی سلیکٹ نہیں کئے تھے ۔ یہ ڈائریکٹریٹ سے ائے ہیں ۔ 

  

       میں کتابیں پڑھنے کے بارے میں کافی محتاط ہوں ( البتہ اپنے لائبریری میں ہر قسم کی کتاب جمع کرتا ہوں ) کیونکہ کچھ کتابوں کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کو بدل ڈالا۔ان کتابوں کا انتخاب اہل دانش اپنی مرضی اور حالات کے مطابق کرتے ہیں ۔ لیکن جہاں کتابیں دنیا کو بدلتی ہیں وہیں کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو دنیا کو گمراہ کر کے اُس کی پسماندگی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ 

ہندوستان کا مسلم معاشرہ مغل زوال کے بعد اور برطانوی اقتدار قائم ہونے پر جن کتابوں سے متاثر ہوا ان کی مدد سے ہم اس کی ذہنی پختگی اور فکر کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ شروعات میں جن کتابوں نے اُس کو اپنے سحر میں مبتلا کیا۔ ان میں طلسم ہوشربا، داستان امیر حمزہ ،قصہ حاتم طائی اور قصہ چہار درویش وغیرہ تھیں۔ یہ کتابیں  ایک مایوس اور بے بس معاشرے کے لئے نشا آور تھیں جو

انہیں حقیقی دنیا سے دورطلسماتی اور خوابوں کی سرزمین پر لے جاتی تھیں ۔ جو انہیں وقتی طور پرسکون دینے میں مدد دیتی تھیں۔

    اس کے بعد کتابوں کا نیا سلسلہ وجود میں آیا یہ اسلامی تاریخی ناول تھے۔ بہت جلد انہیں مسلمان معاشرے میں مقبولیت ملی کیونکہ وہ قوم جو عملی طور پر زوال شدہ تھی، شکست خوردہ تھی ، ان ناولوں کے کرداروں میں وہ خود کو سوتے ہوئے کافروں سے جنگ لڑ رہے تھے۔ انہیں شکست دے رہے تھے۔ فاتح ہورہے تھے اور آخر میں کسی عیسائی دوشیزہ کو بھی انعام میں پاتے تھے۔ لہذا کتابوں میں تحریر شده ان فتوحات میں ہندوستان کے مسلم معاشرے میں ان حالات میں برتری کے ایسے احساسات پیدا ہوئے جبکہ حقیقت میں وہ گراوٹ اور پسنی کے عالم میں تھے۔ یہ

        ایک ایسے فریب میں مبتلا تھے کہ جس سے چھٹکارا پانا اُن کے لئے مشکل تھا۔ تاریخی ناولوں کے اس سلسلے کو آگے چل کر صادق حسین صدیقی سردهنوی نے آگے بڑھایا اور تقریبا ڈیڑھ سو ناول لکھ کر معاشرے کے ذہن کو نشہ آور بنایا۔ ان ناولوں کی جدید شکل نسیم حجازی کے یہاں ملتی ہے۔ ( میرے کافی دوست نسیم حجازی کو اس دور کا بہترین مؤرخ سمجھتے ہیں )) جو اب تک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

        جب تاریخی ناولوں کا جادوٹوٹا تو جاسوی ناولوں کی لہر آئی ۔ خاص طور سے ابن صفی کے جاسوسی ناول دسپی کا باعث بن گئے ۔ جاسوی ناولوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں سراغ رساں یا تحقیقی افسر اپنی ذہانت اور تجربے سے جرم کے سربستہ رازوں کو فاش کرتا ہے۔ اس بیانیے میں قاری حیرت زدہ ہو کر سراغ رساں کے کارناموں سے متاثر ہوتا ہے، اور پھر اس تاثر کو اینی عملی

زندگی میں قومی رہنماؤں سے جوڑتا ہے جو ایک سراغ رساں کی طرح معاشرے کے تمام مسائل حل کر دیں گے جبکہ سوسائٹی خاموشی کے ساتھ اُن کے عمل کو دیکھے گی اور اُن پر انحصار کرے گی۔ اس ذہنیت کے نتیجے میں سوسائٹی تماشائی بن جاتی ہے۔


        آخر میں میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ”بہشتی زیور‘ کا ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی کہ جب ہندوستان کے مسلم معاشرے میں یہ بحث ہورہی تھی کہ کیا عورتوں کو پڑھانا چاہئے یا نہیں ۔ مولانا اشرف علی تھانوی اس کے حامی ہیں کہ عورتوں کو صرف اس قدر تعلیم دینی چاہئے کہ وہ گھر کا حساب کتاب کرسکیں ۔ وہ عورت پر مرد کی بالادستی کے قائل ہیں اور عورت کے لئے گھر کے علاوہ کسی اور جگہ اس کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ کیونکہ اس کتاب میں عورت کو بطور غلام عادی ہونے کی ہدایات اور ترکیبیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب لڑکیوں کو جہیز میں دی جاتی ہے کہ وہ تابع اور فرمانبردار بن کر رہیں۔

      میں تو سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سوسائٹی میں کتابوں کی اشاعت سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا شائع ہونے والی کتابیں دنیا کو بدلنے والی ہیں یا اسے فرسودہ روایات میں جکڑ کر رکھنا چاہتی ہیں۔ اس نقط نظر سے اگر پاکستان میں شائع ہونے والی کتابوں کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ کتابیں مذہبی تعصبات ،فرقہ وارانہ جذبات اور بے جا قومی فخر ( تک شین پاکستانیت ) کے جذبات سے لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کررہی ہیں ۔ اس ذہنیت کا اظہار آج کے ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے.

No comments