سانحہ ٹکر 28 مئی 1930، کل اور اج ،،،، محمد عزیر عظمت
سانحہ ٹکر 28 مئی 1930 کل اور اج ،،،، محمد عزیر عظمت
خدائی خدمتگاروں کے عوام میں مقبولیت اور حمایت نے برطانوی راج کو خوف زدہ کردیا اور انہوں نے تحریک کو کمزور کرنے کے لئے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردی۔ پولیس نے تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ پشاور اور اتمانزئی کے بعد، ٹکر اس تحریک کا مضبوط گڑھ تھا( ٹکر ضلع مردان کے ایک گاوں کا نام ہے) اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ اس تحریک کو کچلنے کے لئے تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کررہےتھے
مئی 26 1930 کو برطانوی پولیس افسر مرفی تحریک کے کارکنان کو گرفتار کرنے کے لئے اپنی فورس کے ہمراہ ٹکر پہنچا۔ گاؤں کے لوگوں نے پولیس کے خلاف مزاحمت کی اور مرفی کو بتایا کہ وہ کل اپنے رہنماؤں کو پولیس اسٹیشن لے آئیں گے۔ 27 مئی کو پانچ رہنماؤں ملک مسم خان، سالار شمروز خان، ملک خان بادشاہ، پیر شہزادہ اور ملک عبد المجید کے ساتھ کئی گاؤں والے ایک جلوس کے شکل میں اپنی گرفتاری کیلئے مردان چلے گئےپولیس نے گجر گڑھی کے قریب دیہاتیوں کو روک لیا اور انہیں مطلوبہ افراد حوالے کرنے اور اپنے گاؤں واپس جانے کا حکم دیا۔ گاؤں والے اصرار کر رہے تھے کہ وہ اپنے قائدین کو پولیس اسٹیشن تک چھوڑ کے آئیں گے
اس بات پر پولیس نے بڑی بے دردی سے لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔ پولیس افسر مرفی نے جوش میں آکر خود بھی لاٹھی چارج میں حصہ لیا اور گھوڑے پر بیٹھ کو دور تک ہجوم میں گھس گیا۔ چونکہ گرمی کا موسم تھا اور جلوس میں شامل لوگ شدید گرمی کی وجہ سے پیاس سے نڈھال تھے اور ٹکر سے تعلق رکھنے والی خواتین پہلے جلوس میں شامل تھیں تو پانی سے مٹکے بھر بھر کر جلوس میں لوگوں کو پلا رہی تھیں۔ مرفی نے مَردوں کے ساتھ خواتین کو بھی مارنا شروع کیا۔ چونکہ پشتون معاشرے میں عورتوں کی بڑی عزت کی جاتی ہے اور جنگ میں بھی عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جاتا، اس لئے مرفی کو خواتین پر ہاتھ اُٹھاتا دیکھ کر سلطان پہلوان نامی شخص نے طیش میں آکر پستول نکالی اور مرفی کو گولی مار کر اُس کو زخمی کردیا۔ جب زخمی مرفی گھوڑے سے زمین پر گِر پڑا تو اس دوران سواتی ابی نامی ایک عمر رسیدہ عورت نے موقع کا فائدہ اُٹھا کر اس کے سر پر پانی سے بھرا مٹکا مار دیا اور مرفی نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
مرفی کے موت کے تیسرے روز یعنی 28 مئی 1930 کو مرفی کی موت کا بدلہ لینے اور اپنے معمول کے ظلم اور زیادتی کو جاری رکھتے ہوئے فوج نے ٹکر گاؤں کا محاصرہ کیا اور پولیس نے گھروں میں گُھس کر تلاشی لینا شروع کر دی۔ گھروں سے نقد رقم اور زیورات قبضے میں لینے کے بعد گھروں میں موجود گھریلو سامان یعنی کہ مٹکے وغیرہ توڑے گئے،اناج پر مٹی کا تیل چھڑک کر اسے بےکار کر دیا، تمام گھروں کے کپڑے، گدے، رضائیاں اور تکیے وغیرہ ایک میدان میں جمع کر کے آگ لگا دی گئی۔ ملک معظم خان اور شمروز خان کے حجروں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ قریبی دیہات سے آئے ہوئے لوگوں نے جب گاؤں سے آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے دیکھے تو انہوں نے فوج پر حملہ کر دیا۔برطانوی فوجیوں نے ٹکر کا محاصرہ کیا اور اس گاؤں والوں پر بدترین قسم کی بربریت اور تشدد کیا۔ ہر طرف تشدد تھا۔ خواتین اور بچوں کو مارا پیٹا۔ یہاں تک کہ انگریزوں نے گاؤں والوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے درختوں پر فائرنگ کی، اور ان لوگوں پر بھی جو محاصرے میں رہنے والوں کی مدد کے لئے ٹکر جارہے تھے۔اس سانحہ میں 70 افراد شھید اور 150 کے قریب زحمی ہوئے تھے
سانحہ ٹکرکو گزرے ہوئی کئی دہائیاں ہوئی برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ازاد ملک بھی حاصل کیا لیکن پختونوں پر ہونے والا ظلم کم نہیں ہوا۔ انگریز راج میں اگر سانحہ ٹکر ، سانحہ قصہ خوانی میں پختونو پر قیامت برپا کیا گیا تھا، تو ازادی کے بعد مسلمانوں نے سانحہ بابڑہ، لیاقت باغ ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت پشتون قوم پرستوں کو ٹارگٹ کرنا اور خڑ کمر جیسے واقعات میں پختونوں کے نسل کشی کی گئی۔ اقتدار تو انگریزوں سے مسلمانوں کو منتقل ہوا لیکن پختونوں کے تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں ائی، کل بھی ہم مظلوم تھی اج تو مظلوم ہونے کے ساتھ دہشتگردی اور غداری کے الزامات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں
یہ قتل عام اج بھی پشتو لوک گیتوں میں یاد کیا جاتا ہے
"په ټکر جنګ دے گولۍ وریږي
اونې پانڑې رژ وینه”
"تۀ راته ووايه چې څۀ پۀ کربلا کښې شوي
ما پۀ ټکر او پۀ بابړه تبصره راوړې”
"ارواښاد صاحب شاه صابر”
تحریر : محمد عزیر عظمت۔
No comments