" سانحہ بنوں جانی خیل اور ہماری ریاست " ،،، انصار یوسفزئی
تحریر: انصار یوسفزئی، نمل اسلام آباد
انصار یوسفزئی |
دوسری اقوام پر سانحات آتے ہیں، وہ ان سانحات کا سدِ باب کرتے ہیں، سیکھتے ہیں اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں مگر دوسری طرف ہم پر سانحات آتے ہیں، پھر آتے ہیں، بار بار آتے ہیں، مزید آتے ہیں لیکن ہم من حیث القوم سیکھنے کی بجائے مزید قومی سانحات کا انتظار کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور مزید پستی کی طرف چلے جاتے ہیں- دوسری اقوام میں جب بھی کوئی بڑا سانحہ ہوجاتا ہے وہاں کے وزیر اعظم یا صدر فوراً غمزدہ خاندان یا کمیونٹی کے پاس پہنچ جاتے ہیں، ان کو اپنی طرف سے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ اس سانحے میں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ اکیلے نہیں ہیں، اور ہماری ہر ممکن کوشش ہوگی کہ اس سانحے کے کرداروں کو گرفتار کر کے ان کو قرار واقعی سزا دی جائیں- مثال کیلے نیوزی لینڈ کی موجودہ وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن کو دیکھئے گا- آج سے کوئی دو سال پہلے نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں ایک دہشت گرد نمازی مسلمانوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور کئی قیمتی جانیں لے جاتے ہیں- وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن بلا کسی تاخیر وہاں آباد مسلم کمیونٹی کے پاس پہنچ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کے غم میں برابر کی شریک ہو جاتی ہیں، یہی نہیں بلکہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر مسلم کمیونٹی سے معافی کی طلبگار بھی ہو جاتی ہیں جس سے پوری دنیا کیلے ایک مثال قائم ہو جاتی ہے- مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں سب الٹ ہے- یہاں وزیر اعظم یا صدر کے آنے کیلے اپنے پیاروں کی لاشوں کو سڑک کنارے رکھ کر سکڑنا پڑتا ہے- یہاں وزیر اعظم صاحب کہتے ہیں کہ آپ اپنے پیاروں کی لاشوں کو قبر میں رکھ دیں میں پھر آپ سے تعزیت کرنے آوں گا کیوں کہ آپ اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر مجھے بلیک میل کر رہے ہیں- ہمارے ہاں ایک کے بعد ایک سانحہ رونما ہوجاتا ہے اور ہر بار ریاست اور وزیر اعظم کی بے بسی کھل کر سامنے آجاتی ہیں- کسی ایک سانحے پر بھی وزیر اعظم، صدر، آرمی چیف یا ملک کے کسی اور بڑی طاقت نے کوئی مثال قائم نہیں کیا- ادھر سانحہ ہوجاتا ہے ادھر وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف سب کے سب ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے اس ملک میں نا وزیر اعظم ہیں، نا صدر اور نا ہی کوئی آرمی چیف-
بنوں جانی خیل کے سانحے کو لیجئے گا، چار نوجوانوں کو، جن کی عمریں 13، 15، 16 اور 19 سال ہیں کو انتہائی بے دردی سے لقمہ اجل کیا گیا ہے لیکن مجال ہے کہ نام نہاد " ریاست مدینہ " کے وزیر اعظم، صدر یا آرمی چیف کا کوئی سٹانس نظر آیا ہوں- وزیر اعظم صاحب کو کورونا ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کا مجمع لگا رہتا ہے لیکن وقت نہیں ہے تو بنوں جانی خیل کے نوجوانوں کیلے، ایک بیان تک اس حوالے سے نہیں آیا- صدر پاکستان اور آرمی چیف پریڈ میں جاکر گھنٹے تو صرف کر سکتے ہیں لیکن نہیں ہے وقت تو بنوں جانی خیل کے ان معصوم لاشوں کیلے جن کے ساتھ انتہائی گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ہے، جو کسی جانور کے ساتھ بھی شائد روا نہیں رکھا جائیں جو جانی خیل میں ان نوجوانوں کی لاشوں کے ساتھ کیا گیا ہے- ہمیں ہر بار کہا جاتا ہے ریاست ہوتی ہے ماں جیسی، میں سوال کرتا ہوں صدر پاکستان سے، وزیر اعظم پاکستان سے اور آرمی چیف سے کہ کہا گئی ہے وہ ماں؟ پچھلے سات دنوں سے ہمارے یہاں بنوں جانی خیل میں چار لاشیں سکڑ رہی ہیں لیکن یہ کیسی ماں ہے کہ ابھی تک پہنچی نہیں؟ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا پختون نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو رہا ہے لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے- آخر سوال بنتا ہے ریاست پختونوں کے قتل عام پر خاموش کیوں ہے؟ یہ کچھ بول کیوں نہیں رہی؟ ایسا لگ رہا ہمارے پختونوں کی سرے سے کوئی ریاست ہی نہیں ہے- پختونوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہیں، جبراً گمشدگی روز کا معمول بن گیا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اندھیر نگری چوپٹ راج ہے- سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے کہ ہمارے قاتل نامعلوم ہیں جو ریاست پہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے- اب بنوں جانی خیل کے ان معصوموں کا قاتل آخر ہیں کون؟ یہ معلوم نہیں ہے- یہ ریاست اور ریاستی اداروں کیلے کتنی شرمندگی کا باعث ہیں کہ آپ کی ریاست میں قتل عام ہوتا ہے اور آپ کو اس کا قاتل معلوم ہی نہیں ہوتا-
پھر ہمارے ہاں سے جب پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریک اٹھتی ہے تو ریاست ہمیں کہتی ہے کہ آپ غدار ہیں لیکن میں حیران ہو یہ ریاست اس وقت کہا ہوتی ہے جب ہمارے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو رہی ہوتی ہے- سینئر صحافی سلیم خان صافی نے ایک دن GHQ میں ایک پریس کانفرنس میں سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور سے ایک سوال کیا کہ ہمارے اس ریاست کے بڑے ہمارے پختون بھائیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جس سے اس میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں آپ اس کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ جس پر آصف غفور صاحب نے کہا کہ صافی صاحب! اس حکومت میں پختونوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے اور ڈیسیجن پوائنٹس پہ پختون بیٹھے ہیں تو پھر نظر انداز کرنا اور محرومی کہا سے آگئی؟ اس بات پر میجر جنرل آصف غفور صاحب جو اب ماشاءالله لیفٹننٹ جنرل بن چکے ہیں، نے سلیم صافی کی بولتی بند کردی اور اسی طرح اس بات پر ریاست نے پختونوں کی بولتی بھی بند کی ہوئی ہیں کہ بھائیوں حکومت میں تو سارے آپ کے بندے بیٹھے ہیں اور آپ پھر بھی محرومیوں کی بات کرتے ہیں جو کہ ریاست کو نامنظور ہے- مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بہت بڑی سوچی سمجھی سازش کے تحت اس بار پختون سیاست دانوں کو کابینہ میں جگہ دی ہوئی ہے تاکہ پختون قوم کو ہمیشہ کی طرح محروم بھی رکھا جائیں اور ان کو یہی کہا جائیں کہ حکومت میں آپ کے پختون سیاست دان بیٹھے ہیں وہ جانے اور آپ- میں سمجھتا ہوں، مراد سعید، علی محمد خان، شہریار آفریدی، پرویز خٹک، اسد قیصر، شبلی فراز، پیر نور الحق قادری، اعظم خان اور شہزاد ارباب کو ایک پلاننگ کے ذریعے عمران خان کی کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں تاکہ پختون قوم کو اپنے ہی لوگوں کے ذریعے خاموش کیا جاسکے، دبایا جاسکے اور محروم بھی رکھا جائیں اور آخر میں ان کو یہی کہیں کہ آپ کے لوگ کابینہ میں موجود تھے انہوں نے ہی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا- یہ کام انگریزوں نے ہندوستان کی عوام کے ساتھ روا رکھا تھا کہ کچھ لوگوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ شامل کر لیتے اور باقیوں کو انہی کے ذریعے دباتے تھے، محروم رکھتے تھے جس پر انگریز سرکار کے خلاف بغاوتیں اٹھنا شروع ہوئی آج یہی کچھ تبدیلی سرکار کے دور میں ہماری پختون قوم کے ساتھ ہو رہا ہے- ابھی بھی وقت ہے ریاست اور ریاستی ادارے پختون قوم کو گلے سے لگائے، ان کے غم میں برابر کے شریک ہو لیا کریں اور بنوں جانی خیل جیسے سانحات کو روکنے کی بھر پور کوشش کریں ورنہ ریاست کو ایک کے بعد ایک منظور پشتین اور ایک PTM کے بعد دوسری PTM تحفے کے طور پر پختون خطے سے ملے گی جس سے شائد پھر ریاست بھی محفوظ نا رہ جائیں-
No comments