COVERING BOTH SIDES OF THE DURAND LINE

Search This Blog

سرفروشی کی تمنا،،،، ڈاکٹر محمد شہزاد


سرفروشی کی تمنا،،،، ڈاکٹر محمد شہزاد






 سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے 


اے شہید ملک و ملت میں ترے اوپر نثار 

لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے 


   اگر آپ انسان ہیں اور ایک کھلا ذہن اور گداز دل رکھتے ہیں تو فلسفوں اور مذاہب کی بھاری کتابیں لادے بغیر بھی آپ کو سماجی ہر طرف نظر آتی ہے۔ پھر " کیوں " آپ کے ساتھ سفر کرنے لگتا ہے۔ جب آپ اس کے اسیر ہو جاتے ہیں تو جواب ڈھونڈتے ہیں ۔ "کیوں" بہت مشکل پسند ہے۔ وہ آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دیتا اور آپ کو چین بھی نہیں لینے دیتا ۔ اسی " کیوں " کے سفر میں اپ بہت سے مکاتب فکر کے لوگوں سے ملتے ہیں. ایسے ہی میں ایک بار میں بھگت سنگھ سے ملا ۔ میں ایک بات ہمیشہ کرتا رہتا ہوں کہ بچے اور کم عمر نوجوان بڑے خوب صورت ہوتے ہیں ۔ پھر دنیا کی آلودگی ان سے یہ حسن چھین لیتی ہے۔ بھگت سنگھ اور اس کے انقلابی ساتھی جو پھانسی پر چڑھائے گئے ، وہ خوش نصیب نوجوان ہیں جو ایک معصوم دل لیے ہنستے ہوئے اس دنیا میں آئے۔ اپنے گردو پیش کی دنیا کے دکھ اور کڑواہٹ پر ان میں بھی کم عمر نوجوانوں کی سی حیرت اور غصہ تھا ۔ ان کی معصومیت حیرت اور جرائت ظلم و نا انصافی سے ٹکرا گئی ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے پھانسی کی رسی کو چوم لی۔ وہ زندگی دینے کے لیے آئے تھے اور دے کر بے نیازی سے چلے گئے ۔ ان پر لکھے گئے کتابوں پر ریویو لکھتے ہوئے میرے دل میں حیرت بھی ہے اور رشک بھی۔ 


   بھگت سنگھ جو کہ ایک شہاب ثاقب کی مانند مختصر سے عرصے کے لیے سیاست کے آسمان پر نمودار ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ گزر جاتا وہ لاکھوں لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ وہ نئے ہندوستان کے جذبوں اور امیدوں کا نشان تھا۔ اس نے بڑی بے خوفی سے موت کا سامنا کیا۔ وہ سامراجی تسلط کو ختم کر کے ہماری اس عظیم سرزمین پر ایک شاندار عوامی ریاست قائم کرنا چاہتا تھا ۔ بھگت سنگھ اور اس کے نوجوان انقلابی ساتھیوں نے اپنے لہو سے آزادی کی جنگ کو ایک نیا رنگ ، نیا روپ اور نیا اہنگ دیا ، جو ہندوستان کے سیاسی افق پر اہنگ انقلاب کہلایا ۔


       برطانیہ کا ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس سر حوریس ویلیم سن اپنی کتاب انڈیا اور کمیونزم میں بھگت سنگھ کا ذکر کرتے ہو ئے لکھتا ہے:

   بھگت سنگھ نے کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ قیدیوں کا کٹہرا ایک سیاسی پلیٹ فارم بن گیا تھا اور سارا ملک اس کے کارناموں سے گونج رہا تھا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں اس کی تصویریں بک رہی تھیں۔ وہ اپنی مقبولیت میں گاندھی کا مقابلہ کر رہا تھا۔“ 


   کانگرس کے اپنے تاریخ دان ڈاکٹر جی پٹا بھی ستیارمیا انڈین نیشنل کانگرس کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ:

”گاندھی جی نے خود وائسرائے سے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ اگر ان لڑکوں کو پھانسی دی جاتی ہے تو بہتر ہو گا کہ انہیں کانگرس کے سیشن کے بعد پھانسی پر لٹکانے کی بجائے پہلے ہی لٹکا دیا جائے۔ اس سے ملک میں ہو نے والے رد عمل کی حیثیت واضح ہو جائے گی۔ عوام کے دلوں میں کوئی جھوٹی امید نہیں رہے گی۔ کانگرس میں گاندھی اروین سمجھوتہ اپنی خوبی کی بنا پر پسند ناپسند ہو گا اور اس بات کو دھیان میں رکھتے ہو ئے کہ تینوں لڑکوں کو پھانسی دے دی گئی ہے“ ۔ 


   سبھاش چندر بوس اپنی کتاب انڈین اسٹرگل میں لکھتے ہیں :

”مہاتما گاندھی پر ان نوجوانوں کی زندگی بچانے کی کوشش کر نے کے لئے دباؤ ڈالا گیا۔ سین فین پارٹی نے سخت رویہ اپنایا تھا اور پھانسی کے سزا یافتہ ایک آئرش قیدی کو رہا کرایا تھا۔ مگر مہاتما گاندھی جو بذات خود انقلابی قیدیوں کے ساتھ رابطہ رکھنا پسند نہیں کرتے تھے اس حد تک نہیں جانا چاہتے تھے۔ جس سے وائسرائے کو اندازہ ہو گیا کہ بھگت سنگھ کی وجہ سے ان کے مذاکرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا تو اس بات سے بہت فرق آیا۔“ 

     بھگت سنگھ کے بارے میں اپ کو زرین فاطمهکی لکھی گئ اس کتاب میں بہت کچھ ملے گا ، لیکن ایک بات جس نے میں مجھے شدید فکر میں مبتلا رکھا وہ یہ کہ جب ہندوستان تقسیم ہوا اور پھر پاکستان تقسیم ہوا تو بنگالی جیتندر داس، پنجابی بھگت سنگھ اور یو پی کا چند ر شیکھر آزاد سب ایک دفعہ پھر پھانسی پر چڑھ گئے۔ سرمایہ دار گوری چمڑی سے نکل کر بھوری کھال میں گھس کر مجبور عوام کی پیٹھ پر اسی طرح کوڑے برساتا ہے۔ کوڑوں کی شکلیں بدل جاتی ہیں، مگر پیٹھ کے زخم وہی ہیں ۔ بالکل ویسے ، غلامی کی شکل بدل گئی ہے مگر غلام وہی ہیں۔ ویسے کے ویسے ۔۔۔۔




 ڈاکٹر محمد شہزاد 



No comments