ہم شکل جڑواں بھائی: کاکڑ و بابک،،، رشید یوسفزئی
ہم شکل جڑواں بھائی: کاکڑ و بابک
رشید یوسفزئی
عرصہ قبل کی بات ہے. پختونخوا اسمبلی میں بجٹ بل پاس ہوا اور بحث جاری تھی. شہتوت خوری کیلئے لائے گئے موسمی پرندوں جنہیں موجودہ پشتون سیاسی اصطلاح میں "توت خورکے" کہتے ہیں شہتوت کھانے کیلئے لائے گئے تھے... ہیں... سو ان کا عوام، سیاست اور ترقیاتی کاموں سے کیا واسطہ! یہ توت کھائیں گے اور اپنی ذات و خاندان کیلئے کروڑوں جمع کریں گے. اور خود تاریخ کے ردی ٹھوکری کے سپرد ہوں گے.... پشتونوں کے غیر پختہ اور غیر سنجیدہ سیاسی فیصلوں کے شرمناک اور قوم دشمن نتائج نہ نئے ہیں، نہ اخری.
مجہول نسل و کردار کے ان موسمی پرندوں کو پختون خوا کی ترقی و ترقیاتی کاموں سے کیا ہمدردی اور کیا دلچسپی. اس بے سنگدلانہ لاپرواہی اور مجرمانہ جہالت سے صوبائی ترقیاتی بجٹ کی سب سے بڑی تاریخی لیپس ہوگئی تھی.
بجٹ اجلاس میں اس ناقابل تلافی نقصان پر اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن ممبران کی ردعمل کا انتظار تھا. پختون خوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے والے مذہبی سیاسی شاہی خاندان سے تھے. اور یہی ان کی ممبری اور اپوزیشن لیڈری کی تنہا کوالیفیکیشن تھی.
حسب قاعدہ سینئر بیوروکریٹ اور متعلقہ مذہبی جماعت سے ہمدردی رکھنے والے صوبائی سیکرٹری ریونیو بورڈ اس مایوس کن بجٹ اجلاس میں شریک تھے. اجلاس کے بعد اسی سیکرٹری ریونیو نے صوبائی مجلس شوریٰ کی بجٹ اجلاس کی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ارکان کی اپنے ہی صوبے سے سوتیلی ماں جیسے سلوک سے متنفر ہونے کے بعد میری نظریں اپوزیشن لیڈر پر تھیں. ہاتھ میں قلم لئے ذہنی طور پر انتہائی الرٹ اور ہمہ تن گوش بیٹھا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کے مالی اعداد و شمار اور گنتی و خسارہ نوٹ کرتا جاؤں اور مابعد کی معاشی پالیسی سازی اور بجٹ تجزیے کیلئے حزب اختلاف کے معزز و فاضل سیاسی رہنما کی بصیرت سے مدد اور رہنمائی لوں.
ا پوزیشن لیڈر اٹھے. ڈاڈھی پر اہستہ دایاں ہاتھ پھیرا. تمہیدی عربی کلمات بولنے لگے جیسے خطبہ جمعہ. اور فرمانے لگے:
"جناب سپیکر، پی ٹی ائی نے اپنے ورکرز کو دوپٹے پہنائے. سرخ و سبز دوپٹے. وزیراعلی سے لیکر پی ٹی ائی کے مشکوک جنس والے لڑکوں کی ہجوم تک جس کو دیکھتاہوں گردن سے دوپٹہ آویزاں کئے ہوئے ہے. بعض کے دوپٹے تو چمکیلے کپڑے کے ہیں........ دوپٹے....... دوپٹے...... دوپٹے. "
سینتالیس منٹ تک اپوزیشن لیڈر دوپٹے پر بولتے رہیں. ہر بار دوپٹہ لفظ پر مشر قوال کے ہمنواؤں کی تھالیوں کی طرح ردھم میں ڈیسک بجاتے رپے. قوم کا مسلہ جوانان یوتھ کے دوپٹے تھے، بجٹ نہیں. حکومتی ارکان کی تو خواہش ہی یہیں تھی کہ تمام سال کے اسمبلی اور حکومت کی سب سے اہم ترین اور پیچیدہ مسلے پر سرے سے بحث ہی نہ ہو. نان ایشو پر بحث ان کی گلو خلاصی تھی. اور اپوزیشن لیڈر خود ایک مجرم حکومتی ٹولے کو نکلنے کا راستہ دے رہا تھا.
ذہن کو مرتکز کرنے والی نکتہ نہ ہو تو انسان بیٹھے بیٹھے doodlin کرنے لگتا ہے. سیکرٹری فنانس دلبرداشتہ ہوکر کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگے..... بقول ان کے ایک جملہ لکھا
Religious politics is a cancerous tissue.
مذہب کے نام پر سیاست سرطانی بافت ہے.
مفلس عوام کے لاکھوں کروڑوں کے ٹیکسز سے جاری اسمبلی کا اجلاس لایعنی،گلی کوچوں اور بازاری مجلس کے گپوں اور نعروں کا نذر ہوتا رہا....... تآنکہ بونیر سے تعلق رکھنے والے اور نچلے طبقے کے عوامی سطح سے اٹھنے اور منتخب ہونے والے جوان ممبر اسمبلی سردار حسین بابک کی بجٹ تقریر کی بھاری ائی. سپیکر اسمبلی نے مائیک پر کہا "جی،" سردار حسین بابک صاب!"
نام سنتے ہی میری نظر بابک صاب کی ڈیسک تک دوڑ گئی. ان کے سامنے پڑھے کافی کاغذات اور فائلز نے میری توجہ کھنچی اور تجسس پیدا کی. بابک صاب ان کے ورق الٹنے جانچنے میں مستغرق حالت میں اٹھے. اٹھنے کے بعد ایک ادھ منٹ کیلئے کھڑے کھڑے انہیں کاغذات اور فائلز میں سے ایک دو اوپر نیچے کرتے رہے تآنکہ سپیکر صاب نے دوبارہ آواز دی "جی سردار حسین بابک صاب!"
اور بابک صاب نے بجٹ شیٹس کے اولین ھندسے سے اغاز کیا. اسمبلی کے ممبران رنگ پریدہ ہوئے. میں نے قلم مضبوطی سے سنبھالا. بابک صاب ایک دو دون قبل پیش کئے گئے صوبائی اسمبلی کے سب سے منحوس بجٹ کی ایک ایک عدد، ایک ایک ھندسے، ایک ایک محکمے کیلئے مختص رقم، ایک ایک فراموش شدہ، نظر انداز شدہ اور محروم شدہ ادارے اور علاقے پر ترتیب اور منطقی و مدلل انداز سے خطاب کرتے رہے. ہر پوائنٹ پر ایک کاغذ اٹھاتے اور ایوان کے سامنے ہلاتے ہوئے ثبوت دیتے ہیں. جدا جدا ہر بیلنس شیٹس کا تجزیہ کرتے ہیں. لم سم lump sum پیش کئے حکومتی اعداد و شمار کے ڈی کنسٹرکشن کرتے ہیں. گھاٹے کے ہر نکتے پر ایسے پریشان ہوتے ہیں جیسے اپنے جیب اور اپنے گھر کے خسارے پر کوئی دلگیر ہوتا ہو.... پوری بجٹ کی ایسی تجزیہ کی جیسے ورلڈ بینک کے ماہر معاشیات....... سیکرٹری صاب نوٹ کرتے رہیں...... بابک صاب بیٹھ گئے تو ایک دو بندوں کے سوا کسی نے تحسین میں ڈیسک نہیں بجائی. نوٹس کے اخر تک سیکرٹری ریونیو بورڈ نے خود کلامی میں لکھا.
Really these nationalists are the true sons of
the soil. Only they love and know how to defend their financial resources and revenue. And, today ANP Sardar Hussain Babak spoke like a chartered accountant!
حقیقت میں یہ قوم پرست ہی اس مٹی کے حقیقی سپوت ہیں. صرف یہ اپنے قومی خزانے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں. اور آج اے این پی کا سردار حسین بابک ایسا بولا جیسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ!
عثمان لالا کے وفات حسرت آیات کے بعد بے شمار قارئین بابک بارے پریشان اور متفکر ہوئے. روزانہ درجنوں میسجز بھیجتے ہیں کہ سر آپ کی آواز دور دور تک پہنچتی ہے. بابک کی حفاظت اور لا پروایانہ طرز زندگی نے ھمیں پریشان کیا ہے کچھ کریں، کچھ لکھیں. کہ بابک صاب بھی احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور پارٹی قیادت اور نوجوان بھی ان کے نگرانی و حفاظت کیلئے مستعد و متحرک ہوجائیں... اور آج صبح پشتون شاعر شمس فگار نے عثمان لالا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عثمان کاکڑ اور سردار حسین بابک کے شخصیاتی مشابہتوں اور کردار، اور و سیاسی زندگی کے سفر trajectory میں مماثلت کے نکات کو ذہن متوجہ کیا. ایک جیسی بیک گراؤنڈ، ایک جیسی قد کاٹ، ایک جیسی دیادی تربیت، ایک جیسی احساسات و جذبات، ایک جیسے لب و لہجہ، ایک جیسے ائیڈیاز اور آئیڈیلز اور آئیڈیالوجی، ایک جیسے وجیہہ و پر وقار شکل و صورت....... جیسے ہم شکل جڑواں بھائی Identical Twins اپ دونوں کے ایک دو تصاویر سامنے رکھیں... ایک دو ویڈیوز ساتھ دیکھیں....... معجزانہ مماثلت........ ایک جیسی مقبولیت اور زندگی کو ایک جیسے خطرات کا سامنا!
مغلیہ دور کے فارسی شاعر نظیری نیشاپوری کا مشہور شعر ہے..... جس کے اول مصرع پر اقبال نے تضمين کرتے ہوئے کہا بملک جم ندہم مصرعہء نظیر را... نظیری کا درج ذیل شعر کا ایک مصرعہ جمشید کی بادشاہی پر نہیں دوں گا..... نظیری کا شعر ہے:
گریزد از صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہء ما نیست
چھوڑ جائے ہمارے صفوں کو جو بھی شخص ھنگامہ خیز نہ ہو. جو بندہ قتل نہ ہو وہ سرے سے ہمارے قبیلے کا ہے ہی نہیں.
باچاخانی و صمد خانی قبیلے سے وابستگی تو ہے ہی سر کے بدلے. لیکن حالت کی نزاکت اور قحط الرجال ایسا ہے کہ قوم مزید اپنے بال بچوں کے معصوم لاشیں، شادی کے عین وسط میں مہندی لگائے دلہنوں، مغرور پشتون پیغلوں دوشیزاؤں کے کٹے انگلیاں اور نازک مگر خون سے رنگین بنگڑی کلائیاں اور بازوؤں جمع کرنے، اور اپنے لیڈروں کے لاشیں اٹھانے اور دفن کرنے کے مزید سکت نہیں رکھتے. دفنانے والوں میں دم نہیں رہا..... اور خطے کے حالت ایسے بن رہے ہیں کہ عالمی استعمار کے عفریت اور ان کے مقامی سوداگروں اور کرایہ گروں کو تنہا پشتونوں اور بالخصوص پشتون لیڈروں کی خون کی کی ضرورت ہے. ان کو سر کے لوگوں کے سر چاہئے.... خاکم بدہن، زبان گونگ ہو اور انگلیاں شل..... کہیں سردار حسین بابک "گم کھاتے میں نہ ڈالا جاۂے!"
جاری ہے.
رشید یوسفزئی
No comments