عثمان لالا کی بہشت آمد اور خوشحال بابا، میرویس بابا، باچا خان بابا اور خان شہید سے ملاقات ،،، رشید یوسفزئی
عثمان لالا کی بہشت آمد اور خوشحال بابا، میرویس بابا، باچا خان بابا اور خان شہید سے ملاقات
رشید یوسفزئی
=======================
چار پشتون انقلابی درویش حلقہِ یاران سجاۓ ایک نئے انقلابی مہمان کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ یاس اور امید کی ملی جُلی کیفیات ان کے چہروں کے بدلتے تاثرات اور جھریوں سے نمایاں ہیں۔ مختصر سی محفل پر مکمل سکوت طاری ہے۔
محفل کو اپنے اشعار سے گرما دینے والے خوشحال خان خٹک بھی آج مکمل طور پر خاموش ہیں۔ خوشحال خان کے داہنے طرف تکیے پر ٹیک لگاۓ ہوۓ پاؤں نیم دراز کیے میرویس بابا بھی گہری سوچ میں مستغرق ہیں۔ بائیں جانب فغرِ افغان باچا خان خیالات میں گم صم بیٹھے ہیں۔ اور سامنے قدرے زیادہ مضطرب دکھائی دینے والے خان شہید عبدالصمد خان گود میں سرخ پتّیوں کی لڑی میں پرویے ہار لیے بیٹھے ہیں۔ وقتاً فوقتاً گردن اطراف میں گھماتے ہیں۔ اور پھر سر نیچھے کر کے انگلیوں سے حجرے کی قالین پر آڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، گویا بےتابی سے اپنے شناسا مہمان کے انتظار میں ہیں۔
اِسی اثناء میں دروازے پر نظریں جماۓ بیٹھے خوشحال خان بابا اچانک والہانہ انداز میں دروازے کی طرف لپک کر با آواز بلند کہنے لگے :
”دغہ دی، دغہ دی، زمونگ زوی راغلو.... زمونگ بریالی، زمونگ د نوجوان نسل گران لالا۔“.... یہاں چاروں بزرگ انقلابی دروازے کی جانب لپکے، وہاں عثمان لالا دروازے تک پہونچ کر تعظیماً ان کے پاؤں کے طرف جھک گئے۔
آنکھوں سے رواں آنسوؤں کے ساتھ ایک ہاتھ میں ہار تھامے، دوسرے ہاتھ سے لالا کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہوۓ خان شہید نے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا روغبڑہ کی۔ خوشی سے نہال اور فخر سے سربلند کیے پورے بہشت میں بلند قامت فخرِ افغان خان عبدالغفار خان ، میرویس نیکہ اور خوشحال بابا نے باری باری اپنے مہمان کو گلے لگایا، سینے سے چِمٹاۓ رکھا، بوسے دیے ہار پہناۓ اور بہشت میں پشتونوں کے حجرے میں لے جا کر گاؤ تکیہ پر بٹھا دیا۔
مہمان کے گرد حلقہ بناۓ بیٹھے میزبانوں کے چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھتی ہے۔ روغبڑہ، روایتی اور پرجوش جملوں کے تبادلے ہیں۔ مسکراہٹیں ہیں.. ہنسی ہے... قہقہے ہیں۔
مگر ایک خان شہید ہیں کہ جن کے چہرے سے مضطرب تاثرات جا نہیں رہے ہیں۔ بلکہ ان کی بے چینی کی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں لالا سے کچھ مختلف کہنے اور سننے کی طلب ہے مگر دیگر تین بزرگوں کی موجودگی میں پہل نہیں کر پا رہے ہیں۔
خان شہید کی یہ مشکل بالآخر میرویس بابا نے عثمان لالا سے یہ پوچھتے ہوۓ حل کر دی کہ:
”عثمان ، کیا حال لاۓ ہو اپنے ساتھ میری قوم کا؟“
عثمان لالا: "بابا! یہ حوال تو آپ تک مجھ سے پہلے باچاخان اور خان شہید کے توسط سے پہنچ ہی گیا ہوگا کہ فرنگیوں نے تقسیم در تقسیم کرنے کے بعد ہمیں باچاخان کے الفاظ میں دوسرے بھیڑیوں کے آگے پھینک دیا تھا۔ اور وہ بھیڑیا دین و اسلام کے نام پر ابھی تک اپنے پنجے پشتون سرزمین کے سینے پر گاڑے ہوۓ ہے۔ آپ کا ”لوئے قندھار“ آپ کے سپوتوں نے جلد کھو دیا تھا۔ سرزمین پر تقسیم کی مزید لکیریں اِن بھیڑیوں نے فرنگیوں کے بعد کھینیچ لی ہیں۔ اور انہی استعماری لکیروں کو اب آپ کے بچے حقیقی سرحدیں تصور کرنے لگے ہیں۔ اپ کی اولاد وہ اصفہان تک پہونچے آپ کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں اور اپنے پرکھوں کی جرات و شجاعت کو کب کا فراموش کر چکے ہیں۔ آپ کے بعد ایک انگریز نے تو آپ کو ”پشتونوں کے جارج واشنگٹن“ کا لقب دیا مگر خود پشتون آپ کی عظمت کیا آپ کے نام کو بھی بھلا چکے ہیں۔ اب یہ جنوبی و شمالی پختونخواہ اور افغانستان میں اپنی مصنوعی تقسیم کو حقیقت سمجھ کر قومیت کا جذبہ کھو بیٹھے ہیں۔ کَٹ رہے ہیں۔ مَر رہے ہیں۔ دنیا کی تباہ حال اقوام میں سرفہرست ہو گئے ہیں۔ قومی حمیت اور غیرت تاریخی واقعات میں دفن ہو گئی ہیں۔ عالمی سامراج، پاکستانی بھیڑیے اور مذہب کے مقامی ٹھیکیداروں نے اسلام اور جہاد کے نام پر ہماری لاشوں کا انبار لگا دیا ہے۔ سرزمین ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے۔ اِن ٹکڑوں پر پشتون دشمن آقاوں کے غلام پشتون اور جعلی قوم پرست پَل رہے ہیں... دونوں اٹک کے اس پار مغلوں کے زرخرید غلام ہیں."
یہ سنتے ہی خوشحال بابا انتہائی غضبناک ہوۓ اور لالا کی بات کاٹتے ہوۓ کہا؛
مروت ياري ترې مه غواړه خوشحاله
هغه سړې چې اوبه نوش کړي له اټکه
اور پھر باچاخان بابا گویا ہوۓ:
"ھم نے تو اس قوم کے لیے بہت سے انتہائی منظم اور جانباز سیاسی کارکن چھوڑے تھے جو رنگ و نسل کے تفاوت سے بالاتر ہو کر ہر مظلوم کی آواز بنتے تھے۔ جو پشتون اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کیلئے کوشاں تھے..میں تو خپلہ خاورہ خپل اختیار کا نعرہ چھوڑ کر آیا تھا... خان شہید نے قوم کو شعور اور خود اگاہی دینے اور اپنا اجتماعی منزل کی تعین سمجھنے کے لیے پہلا پریس لگایا۔ قومی زبان کی اہمیت پر شبانہ روز محنتیں کیں۔ اور اِن مُلّاؤں کی کارستانیوں کے بارے میں تو میں اِس قوم کو اپنی پوری زندگی آگاہ کرتا رہا۔ میں نے انہیں جب سمجھایا کہ یہ افغان سرزمین پر کوئی جہاد نہیں، بلکہ دو ہاتھیوں (امریکہ اور روس) کی لڑائی ہے۔ تب اِن مُلّاؤں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگاۓ۔ اور حیرت ہے کہ میری قوم اب بھی اِن ملّاؤں اور ان کے آقاؤں کو سمجھ نہیں پائی ہے؟"
عثمان لالا: "نہیں بابا، بجاۓ آپ کی نصیحتوں کو پلّے باندھنے اور مزاحمت کے، اپ کا قوم زوال کی گہرائیوں میں جا گِری ہے۔ ایک ہاتھی (امریکہ) نے بیس سال قبل دوبارہ حملہ کیا۔ ڈالر کی ریل پیل دوبارہ شروع ہوئی۔ بیس سالوں سے وطن گولہ و بارود کی آگ میں جل رہا ہے۔ سنگ و آہن برس رہے ہیں۔ لاکھوں پشتون اس جنگ کی آگ میں جھلس چکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں۔ سرزمین کے سینے کو خودکش بمباروں اور فضائی طیّاروں کے بمبوں نے ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ پشتون کا کوئی گھر نہیں رہا ہے۔ ایک ٹکڑا عالمی سامراجوں کا اصطبل بن گیا ہے اور دوسرے ٹکڑے غیر پشتون سامراج کے پنجوں میں ابھی تک سِسک رہے ہیں۔ ایک ٹکڑے کو انگریز سامراج کی جانب سے دئیے گئے ”سرحد“ کے نام کو قابض اٹک پار ایک ایجنسی کے پاشا نامی جرنیل نے ”خیبر پختونخواہ“ رکھوا دیا تو بے خبر قوم پرست اور ان کے پیروکار اِسی کو بڑا اعزاز اور انعام سمجھ بیٹھے ہیں۔ مگر دوسری جانب سرزمین پر آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ پاکستانی سامراج نے درہم اور ڈالروں کے عوض کبھی شیخ عبداللہ عزام اور اسامہ بن لادن جیسے خونخوار عربوں کو پشتون سرزمین پر درآمد کیا تو کبھی ننگِ ملت، ننگِ وطن جلال الدین حقانی، ملا عمر، مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، سراج الدین حقانی جیسے وحشی طالبانوں کو پشتون سرزمین پر خون کے دریا بہانے کے ٹھیکے دیے۔ اور اب امریکہ بیس سال بعد وطن کو خون میں نہلا کر نکل رہا ہے تو پشتون سرزمین پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے اپنے وفادار رکھیل پاکستان سے وزیرستان و بلوچستان میں پھر فضائی اڈوں کی تعمیر کیلئے جگہ مانگ رہا ہے، جس کے سالانہ پانچ ارب ڈالرز اپنے اس رکھیل کو دے گا۔ امریکہ و پاکستان اور ان گماشتوں اور پشتون وطن کے ان غداروں نے قوم کو لہولہان کر دیا ہے۔ پشتون وطن کا چپّہ چپّہ لہو کی چھینٹوں سے سرخ ہو چکا ہے۔ قوم نڈھال ہے۔ کوئی آسرا نہیں ہے۔ بے سروسامانی ہے۔ پوری قوم سامراج کی خیراتی ٹکڑوں پر پلتی ہوئی ایک بے آسرا یتیم دکھائی دیتی ہے۔"
خوشحال بابا: "آہ، عثمان بیٹا! میں نے تو ایک تہترو کی جنگ میں چند پشتونوں کے ساتھ چالیس ہزار مغلوں کو تہہ تیغ کیا. اب کروڑ پشتون کا یہ حال؟
عثمان لالا:" بابا اب پشتونوں میں نہ وہ غیرتی خون ہے اور نہ باہر سے دشمن کی ضرورت. اب چند ٹکوں کے عوض وہ ایک دوسرے کو خود مارتے اور خوار و ذلیل کرتے ہیں. ماضی قریب میں ایک پاکستانی جرنیل تھا شاید باچاخان نے اپ سے نام ذکر کیا ہو اختر عبدالرحمن. اس پر کسی ادارے نے" خاموش مجاہد" کے نام سے ایک کتاب لکھی. اس کتاب کی ایک بات یاد اگئی. لکھتا ہے کہ "افغان قوم کو باہر سے دشمن کی ضرورت انہیں ایک کپ سبز چائے دو اور ایک گڑ کی ٹکیا یہ اپ کیلئے بھائی کو قتل کریں گے!" بابا، اب پشتون کی یہ حقیقت ہے! ایسے میں مغلوں کی دشمنی کی ضرورت نہیں. یہ خود ایک دوسرے کی دشمنی کیلئے کافی ہیں. "
خان شہید دانشور تھے سو ان کے ذہن میں وہی انٹلکچول اور کلچرل سوالات گردش کرتے رہیں. پوچھنے لگے:
" عثمان، تیرے آنے اور تجھ سے ملاقات کا ھمیں بے حد اشتیاق تھا۔ مگر تجھے بہت جلدی ہمارے پاس بھیج دیا گیا۔ اچھا، پشتون کلچر کی رنگا رنگی قایم ہے کیا؟ موسیقی کے مجلسیں، حجرہ وجرگہ کلچر وجود رکھتے ہیں کیا؟"
عثمان لالا:" خان شہید ! پشتون ثقافت کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عرصہ ہوۓ عرب بدویت میں تبدیل کر دیا ہے۔ پشتون ولی اور پشتون ثقافت نام کی کوئی چیز اب زندہ نہیں رہی ہے۔ عربوں کی ثقافتی یلغار نے سب کچھ تہہ و بالا کر دیا ہے۔ اس ثقافتی یلغار نے قوم کو اپنی جداگانہ شناخت، تاریخ اور ثقافت سے بیگانہ کر دیا ہے۔ پشتو زبان جس کی املاء آپ نے قید و بند کی صعوبتیں کے دوران تشکیل دی، وہ اب معدوم ہو چکا ہے۔ اب لمبی داڑھی، اوپر سرکے ہوۓ پائینچے، مذہب اور مار دھاڑ ہی پشتون کی قسمت بن گئی ہے اور یہی کلچر بھی۔ عرب بدوؤں کی ثقافت کے تحفظ پر بھائی بھائی کے لہو کا پیاسا ہو چکا ہے۔ مریضانہ مذہبی ذہنیت کی فروغ سے موسیقی محفل باعث شرم مانے جاتے ہیں. گزشتہ دس سال میں سولہ پشتون گلوکاراؤں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے. ثقافتی زندگی کے اظہار لوگرے رقص ، اتنڑ اور خٹک ڈانس پر پشتون خجالت محسوس کرتے ہیں... حجرے ویراں ہیں اور حجرہ کلچر معدوم. ایک لعنت ائی موبائل فون کی... ایک وباء ائی ہے سوشل میڈیا کی جس میں فیس بک اور تک ٹاک کے سرطان شامل ہیں. بوڑھے جوان صحت مند محفلیں اور مشغلے کھیل اور کبڈی بھول گئے ہیں. پورا سماج عالمی استعمار اور چالاک پشتون دشمن ریاستی میڈیا نے زومبیز میں تبدیل کیا ہے....چلتے پھرتے کھاتے پیتے موبائل فون. عمر رسیدہ اپنا تجربہ اور حافظہ آنے والے نسل کو منتقل کرنے کی بجائے ضائع کر رہاہے. جوان میں مستعدی ختم. کھانا کھاکے وہی پاوں دراز کرکے موبائل فون میں گم سم ہوجاتے ہیں. اپ کے اولاد ذہنی و جسمانی صحت کھو رہی ہے. بوڑھے ماؤں کیلئے بچوں کے دو بول درازئ عمر کے ٹانک ہوتے ہیں.... مگر بچوں کو فیس بک و ٹک ٹاک سے فرصت کہاں...اج کا نسل گھر میں اجنبی ہے..... جرگہ کے روایات پشتونوں کے جلد اور مفت انصاف Free and speed justice کے اسباب تھے.... اب جرگہ کرنا اور ماننا بے غیرتی تصور کی جاتی ہے".
لالا کی زبان سے یہ صورت حال سن کر درمیان میں باچاخان بابا دردناک انداز میں اچانک بولے؟
قوم کی تربیت سیاست دان اور سیاسی پارٹیوں اور انٹلکچولز کا فریضہ ہوتا ہے. پشتون سیاست دان کہاں گئے جو میرے قوم کی یہ حالت زار ہے؟
عثمان لالا: "بابا، وہ دن گئے جب کوئی سیاست کو عبادت سے کم سمجھتا تو لوگ آپ کا مثال سامنے رکھتے. اب سیاست محض کمائی کا نام رہ گیا. ایک بے رحم لالچی دوڑ ہے. پشتون سیاست دان گروہوں میں بَٹ گئے ہیں. غیر پشتون دشمن کو سر انکھوں پر بتھاتے ہیں مگر پشتون بھائی کو براعظم میں برداشت نہیں کرتے. قوم پرستی کے نام پہ ہر ایک نے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کھڑی کر دی ہے۔ (لالا خان شہید اور باچاخان دونوں کو مخاطب کرتے ہوۓ) آپ کی قربانیوں کا یہاں سودا کیا جاتا ہے۔ آپ کے نام پہ محض ووٹ بٹورے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کا گریبان پکڑا جاتا ہے۔ دشنام طرازی کی جاتی ہے۔ چند لالچی مفاد پرستوں، اقربا پروروں نے آپ کی مقدس قربانیوں کو اقتدار کے حصول اور کرپشن کی دوڑ کے نذر کر دیا ہے۔ جنہوں نے آپ دونوں کی قربانیوں کا سودا کیا، وہ میرے لہو کو نہ بیچیں؟ اب پشتون سیاست عوامی اکیڈمی نہیں چند خان خوانین اور ان کے بچوں پوتوں کی کاروبار ہے. نئی نسل کی تربیت این وائی او اور ننگیالے جیسے تنظیموں میں ہوتی. کارپوریٹ سیاست کے اجارہ داروں نے اپنے کاروبار کی خوف سے وہ تنظیم ہی نیست و نابود کئے. قومی اسمبلی کے ٹکٹ سے لے کر یونین کونسل کے ممبری تک ایک فرنچائز سسٹم بنی ہے. ھشتنغر کی پگڑی کسی اور نے سیاسی سرمایہ کاری کیلئے رہن رکھی ہے. انتخابات میں امیدوار مرادن کارپوریشن کے طرف سے مسلط ہوتے ہیں. نیشلسٹ نوجوان ٹیلینٹڈ بھی ہے اور الوالعزم بھی. متحرک بھی ہے اور باشعور بھی. مگر سیاسی کاروبار پر قابض ٹائکون ان کو موقع کب دیتے ہیں. عدم شرکت non participation نے تعلیم یافتہ نیشنلسٹ جو سیاست سے دلبرداشتہ کیا ہے. لہذا قوم بے سمت ہے۔ کوئی راہرو نہیں۔ کوئی رہنما نہیں....۔ قوم کے دانشور ایک محدود خول میں بند ہیں. ان کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت نہیں مل رہی ہے۔ سات کروڑ پشتونوں میں انٹیلیکچول توانائی اور مردانگی intellectual vigor ناپید ہو چکی ہے"۔
باچاخان بابا:" اتنی بڑی قوم میں کوئی ایک مخلص صاحب بصیرت رہنما نہیں؟"
عثمان لالا:" بابا جانی، عرض کیا. سیاست کی سمجھ ہی کسی کو نہیں. ایک لیڈر کے لئے اپنے قوم میں کرشماتی ہونا یعنی Public Appeal, باہر بین الاقوامی دنیا سے واقف ہونا اور انٹرنیشنل تعلقات رکھنا، بصیرت رکھنا،مخلص ہونا اور زود فہمی و قوت فیصلہ کیساتھ سیاسی ادارک رکھنا لازمی صفات ہیں.. خان عبدالولی خان یہاں بہشت تشریف لائے تو یہ تمام صفات اپنے ساتھ جمع کرکے ہی لائے. ان کے بعد پشتونوں میں ایسے صفات سے متصف ایک شخص بھی نہیں!"
باچا خان:" یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ افراسیاب خٹک کا کیا بنا؟ کیوں، وہ کیا کر رہا ہے؟"
عثمان لالا:" ہاۓ بابا جانی! یہ خٹک پاکستانی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ دونوں کا بغل بچہ بنا ہوا ہے۔ کسی نے اسکو روباہ باران دیدہ seasoned fox کا خطاب درست دی تھا. پشتونوں کے درمیان فساد برپا کرنے کے لیے تمام دنیا کی خدمات بجا لانے میں مصروف ہے۔ ایک طرف اپنے داماد کے باپ اور پنجابی صحافی مشاہد حسین کے ساتھ لاہور و راولپنڈی میں سازشی جالیں بُنتا ہے، تو دوسری جانب امریکہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر حسین حقانی کے ساتھ مل کر امریکی احکامات پر عمل در آمد یقینی بناتا ہے۔ بس اب پشتون اس نکتہ کھولاؤ boiling point پر پہنچ چکے ہیں کہ اس کے پاس کوئی جرگہ بھیجیں کہ خدا را اب پشتونوں کی جان بخشی کر دیں۔ اس کیلئے مستقبل کی پشتون تاریخ میں نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں. "
کچھ دیر قبل جو چہرے اپنے مہمان کی آمد پر خوشی سے درخشاں تھے، کھلکھلا رہے تھے.... اب اچان مرجھا گئے۔ چاروں باحوصلہ اور اولوالعزم پشتون بزرگ بے حد مغموم ہو گئے۔ محفل کی فضا اداس ہو گئی۔ باچا خان بابا کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ ان کے رخسار پر گرا، جسے انہوں نے جلدی سے منہ پھیر کر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے صاف کیا تاکہ لالا کی نظر ان کی رواں اَشکوں پر نہ پڑے۔ میرویس بابا سر نیچے کیے اٹھ کر حجرے میں ٹہلنے لگے۔ خوشحال بابا تکیے پر ٹیک لگاۓ انتہائی مغموم نہ جانے زیرِ لب کیا کہے جا رہے تھے۔ شاید کوئی اشعار دل ہی دل میں پڑھ رہے ہوں۔ اور پھر انہوں نے دھیمی آواز میں دو اشعار کہے؛
ماوې واړه په احسان زما بنده دي
همګي ئې زيست روزګار و له کوتکه
دمعنې په سترګو ګوره که دانا ئې
په ظاهرجامه کې ښه برېښي لټکه
خوشحال بابا کے اشعار کے بعد پھر سے ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ اور پھر خان شہید نے لالا کے زانوں پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ اس خاموشی میں ہلکی سی ارتعاش لا کر پوچھا...
”سنا ہے کہ ایک نوجوان اٹھا ہے اور قوم کو نئی تحریک، نئی امید دی ہے؟“
عثمان لالا: (کچھ توقف کے بعد) جی خان شہید! تین سال قبل جب یہ تحریک ابھری تھی تو جوان، بچّے، بوڑھے خواتین سب کی امنگوں کا ترجمان بن کر یہ تحریک سامنے آئی تھی۔ قوم کو نیا مشعل مل گیا تھا۔ اس نوجوان اور تحریک کی صورت میں قوم کو امید کی نئی کرن نظر آئی تھی۔ ریاست بوکھلا گئی تھی۔ خواتین بھی جوق درجوق اس کاروان میں شامل ہوتے گئے۔ کئی جوانوں کو ریاست شہید کر چکی ہے۔ کئی کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ آپ کا ایک بہادر بیٹا علی وزیر اور اس کےکئی ساتھی آج بھی مختلف جیلوں میں میں پڑے آپ کی مزاحمتی روایت کو زندہ رکھے ہوۓ ہیں۔ سانحہ خڑ قمر میں فوج نے درجنوں پشتون سپوتوں کو شہید کیا تو سانحہ بابڑہ کی یادیں کچھ وقت کے لیے تازہ ہوئیں۔ مزاحمت کی موہوم سی کرن لوگوں کے سینوں میں جاگ اٹھی۔ مگر اس بار بھی قوم کے جذبات جاگ کی طرح اٹھے اور بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔ کم عرصے میں بے پناہ قربانیوں کے باوجود اس تحریک نے ماضی کی غلط روایات سے کچھ نہیں سیکھا۔ فرعونی مزاج نے اس تحریک کے قائدین اور نوجوانوں کو بھی آ گھیرا۔ اِنہوں نے بھی اپنی گردنوں میں سَریے ڈال لیے ہیں۔ نام اور شہرت کے تعاقب میں قومی فریضے کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ ایک نئی سیاسی پارٹی یہیں سے جنم لے چکی ہے۔ تحریک میں قیادت کا بحران ہے۔ دھڑے بندی ہے۔ کارکن کوئی نہیں، قائد ہزاروں ہیں۔ ہر کوئی اپنی حماقت اور انانیت میں سوشل میڈیا پر گالی گلوچ اور اپ کے معزز پشتون کردار پر جگ ہنسائی کرانے پر مصروف ہے.... اور بدحال و لاچار قوم کو ہر سراب کے بعد پھر سے ایک نئے سَراب کا سامنا ہے۔
اذیت ناک احساسات اپنے انتہا پر پہنچ چکے تھے. باچاخان بابا اور خان شہید کے لبوں پر بیک وقت ایک ہی سوال آیا جسے خان شہید نے احتراما باچا خان پر چھوڑ دیا. بابا بولے:" عثمان بچے اخر تم نے پشتونوں کو کس امید اور کس کے سہارے پر چھوڑا؟"
عثمان لالا:" بابا جانی، تور سروں، کنڈو رنڈو یتیم بچوں اور بیواؤں کی دعاؤں اور یہاں عرش عظیم سے ان دعاؤں کے جواب کے امید پر..... اور رب رحیم و کریم کے آسرا پر!"
محفل پر ایک بار پھر اذیتناک سکوت کا گہرا سایہ چھا گیا۔ باچا خان بابا کو ہچکی آئی، ان کے آنسو رواں ہوۓ۔ اس بار انہوں نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش نہ کی۔ آنسو دیکھ کر عثمان لالا بھی ان کی گود میں گر پڑے۔ بچے کی طرح ان سے لپٹ گئے۔ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ باچا خان بابا کا دامن لالا کے آنسوؤں سے تَر ہوتا گیا۔ اور لالا کے رخسار پر باچا خان بابا کے آنسو قطرہ قطرہ گر نے لگے۔ خان شہید اپنی چادر سے چہرہ ڈھانپ کر باہر نکل پڑے۔ میرویس بابا گفتگو کے درمیان میں ہی حجرے میں ٹہلتے ہوۓ کسی وقت وہاں سے خاموشی سے نکل پڑے تھے۔ اب ایک طرف باچا خان بابا اور لالا تھے کہ ان کے آنسو غالباً خشک ہو چکے تھے۔ محض ہچکیوں کی آوازیں وقفے وقفے سے آرہی تھیں۔ اور ایک کونے میں خوشحال بابا تھے جو ایک بار پھر مکمل خاموش، اپنے خیالات میں کھوۓ ہوۓ، چہرے پر غصے اور مایوسی کے تاثرات لیے مسلسل زیرِ لب کچھ کہے جا رہے تھے۔
رشید یوسفزئی
----------------------------------------
حرف التماس: یہ تخیلاتی مکالمہ محض میرے خالص احساسات ہیں. اپنا ایک درد جو افسانوی خود کلامی کا شکل اختیار کرگیا. اسمیں ارادی طنز یا نفرت کا شائبہ تک نہیں. ان خیالات سے جزوی یا مکمل اختلاف ممکن ہے. کسی کی دلآزاری ہو تو دست بستہ معافی چاہتا ہوں. کاپی پیسٹ، شئر کرنے، بلاگز و ویبسائٹ پر لگانے کیلئے انفرادی اجازت لینے کی ضرورت نہیں. میرا نام ہٹا کر آپ اپنا نام لگاکر بھی پھیلا سکتے ہیں.
No comments